صدر آصف زرداری نے خواتین پر تشدد کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی، انسانی وقار کے منافی عمل اور معاشروں کی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ایسے مستقبل کی تعمیر کرنی ہوگی جہاں ہر عورت اور لڑکی خوف اور تشدد سے آزاد زندگی گزارے، اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لا سکے۔
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر جاری بیان میں صدر مملکت نے کہا کہ آج ہم دنیا بھر کی کروڑوں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں جو اب بھی طرح طرح کے تشدد کا سامنا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عورت پر تشدد نہ صرف انفرادی سطح پر غلط ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہونے کیساتھ انسانی وقار کے منافی عمل اور معاشروں کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم، ہنر اور معاشی خود مختاری کے ذریعے بااختیار بنانا تشدد کو ختم کرنے کی بنیادی شرط ہے، مضبوط قانونی ڈھانچے، ادارہ جاتی سہارے، آگاہی کا فروغ اور ثقافتی رویوں میں مثبت تبدیلی بھی اس سلسلے میں اتنی ہی اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال کا موضوع خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے خاتمے کیلئے اتحاد ہمیں پیشگی حکمت عملیوں، متاثرہ خواتین کی معاونت اور نظام میں اصلاحات پر سرمایہ کاری بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ موضوع ڈیجیٹل دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے فوری سدباب کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، یہ مہم حکومتوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ہر فرد کو اس مسئلے کے خاتمے کیلئے متحرک ہونے کا پیغام دیتی ہے، ایسے معاشرے کے حصول کیلئے جہاں خواتین بلا خوف و خطر زندگی گزار سکیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ حکومت پاکستان نے متعدد اقدامات کئے ہیں جن میں تحفظ خواتین برائے ہراسگی بمقام کار (ترمیمی)ایکٹ 2022ئ، انسداد تجاوز بالجبر(تفتیش و ٹرائل)ایکٹ 2021ئ، نفاذ حقوق ملکیت نسواں ایکٹ 2020ء شامل ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ ان کوششوں کو انسداد انسانی سمگلنگ ایکٹ 2018سے بھی تقویت ملی ہے جس میں خواتین کے استحصال اور جبری نقل و حرکت کے خلاف دفعات موجود ہیں، علاوہ ازیں نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو)، فیملی پروٹیکشن سینٹر اور ٹول فری ہیلپ لائن 1099جیسے معاون ادارے قائم کیے گئے ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے قانون سازی بھی نہایت اہم ہے، اس ضمن میں سندھ 18سال کی حد مقرر کر کے سرفہرست ہے جبکہ اسلام آباد اور پنجاب بھی یہ قانون بنا چکے ہیں، توقع ہے کہ دیگر دو صوبے بھی جلد اس پر عمل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری اداروں، سول سوسائٹی اور برادریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کیلئے اپنی مشترکہ کوششوں کو مزید تیز کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قوانین نہ صرف منظور ہوں بلکہ پوری طرح نافذ بھی کئے جائیں، میں تمام ذمہ دار شہریوں کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہر طرح کے امتیاز، محرومی اور خاموشی کو چیلنج کریں، کیونکہ تبدیلی کا آغاز ہمارے گھروں اور ہمارے کام کی جگہوں سے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئیے ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم ایسا مستقبل تعمیر کریں جہاں ہر عورت اور ہر لڑکی خوف اور تشدد سے آزاد زندگی گزار سکے اور اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لا سکے، میں ان تمام متاثرین، کارکنوں، معاونت فراہم کرنے والے اداروں اور افراد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو خواتین کی عزت، تحفظ اور سلامتی کیلئے کوشاں ہیں۔


