خوش اور مطمئن کون ہے۔


خوشی اور اطمینان ایک ذہنی اور قلبی کیفیت کا نام ہے، جو بسا اوقات انسان کی جسمانی حرکات سے بھی مترشح ہوتی ہے۔ خوشی کے پیچھے بھاگنے سے خوشی نہیں ملتی۔ یہ اپنے حالات پر مطمئن رہنے سی ملتی ہے۔ آج ہر دوسرا شخص مایوسی ، پریشانی اور ڈیپریشن کا شکار نظر آتا ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ لوگ قہقہے بھی مصنوعی لگا رہے ہیں۔خوشی کا تعلق دولت یا وسائل کی فروانی سے بھی نہیں ہے، ورنہ بہت سے کروڑ پتی اور ارب پتی خود کشیاں کرتے نظر نہ اتے۔بہت سے امیر و کبیر لوگ حالات کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ کسی کو کاروبار میں اتار چڑھاؤ پریشان رکھتا ہے ،تو کسی کو اولاد کی ناکامی اور نافرمانی۔ کوئی بیگم کے ہاتھوں خراب ہو رہا ہے تو کوئی عشق کی ناکامی پر خواب اور گولیاں کھا رہا ہے،کسی کی سرمایہ کاری ڈوب چکی اور کسی کو گرتی صحت غیر مطمئن اور مایوسی میں دھکیل رہی ہے۔کسی کو اپنوں کے ہاتھوں زخم آئے اور کوئی غیروں کا تختہ ستم بنا۔ہر غیر مطمئن اور حالات سے مایوس انسان کی الگ ہی کہانی ہے، الگ ہی داستان ہے۔ جس میں عبرت بھی ہے، سبق بھی ہے,بعض تو رونگٹے کھڑے کرنی والی داستانیں ہوتی ہیں۔۔ شاید لالچ، خود غرضی، راتوں رات امیر بننے کی دوڑ بھی ہماری خوشیوں کی دشمن ہیں۔ جن میں ہم رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کرتے چلے جاتے ہیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ہر کسی کے پاس اپنی مایوسی اور پریشانیوں کی ٹھوس وجوہات ہیں، جن میں وہ اپنے افکار و کردار پر غور کرنے کی بجائے دوسروں کو قصور وار قرار دیکر اطمینان ڈھونڈ رہا ہے۔ جب خد غرضی ،اخلاص کو زیر کر لے تو اسکا پہلا شکار قریبی رشتے اور تعلق ہی ہوا کرتے ہیں۔
اطمینان قلب اور خوشی کے لیے ، نہ دولت کی فراوانی چاییے ، نہ جاہ و منصب کا حصول، نہ دنیاوی وسائل کی کثرت نہ دنیاوی کروفر، ہاں البتہ انسانی صحت ان تمام باتوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔ زندگی ایک نعمت ہے مگر تندرستی اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ میرے خیال میں انسانی خوشی اور اطمینان بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ شاید سب سے زیادہ صحت اور تندرستی میں ہے۔ ایک صحت مند ریڑھی والا یا دیہاڑی دار مزدور اس بیمار کروڑ پتی سے جو بستر سے اٹھنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا ، بہت زیادہ خوشحال اور مطمئن ہے۔ رات کو ڈھیر ساری دوائیاں کھا کر سونے سے بہتر ہے ،کہ رات اللہ کی یاد میں گزار کر اطمینان اور خوشی حاصل کی جائے ۔ وہ مزدور جو چھ سات سو روپے دیہاڑی لیکر رات کو سکون کی نیند سوتا ہے، اس مالدار سے بہت زیادہ خوش اور سکون میں ہے ، جو ساری رات کروٹیں بدل کر اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار خوشی اور اطمینان سے کوسوں دور زندگی گزار رہا ہے۔خوشی اور اطمینان تو آپکے ارد گرد منڈلا رہا ہوتا ہے، اسے قابو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اطمینان ، یہ خوشی، یہ contentment, ذکر الہیٰ میں بھی ہے, قرآن کی تلاوت اور مطالعہ میں بھی ہے، انسانی خدمت میں بھی ہے۔ صلہ رحمی میں بھی ہے، غریب و مسکین کو کھانا کھلانے میں بھی ہے، کسی یتیم و بے کس کے سر پر دست شفقت رکھنے میں بھی ہے،اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں پر شکر گزاری میں بھی ہے، حسن اخلاق میں بھی ہے، حسن کردار میں بھی ہے، سخن دلنواز میں بھی ہے، اور چہرے کی مسکراہٹ میں بھی ہے۔ پرانے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں بھی ہے۔ اپنی پسند کی کسی تفریح میں بھی ہے،جو ان سب میں سے کسی ذریعہ سے بھی اطمینان قلب حاصل نہیں کر پاتا، وہ بد نصیب ہے، اسے قناعت، خوشی اور اطمینان کا ملنا مشکل ہے۔ لوگ خوشی اور اطمینان کو دولت میں ڈھونڈتے ہیں، حالانکہ یہ تو قناعت اور ایثار میں ہے۔ یہ تو خدمت انسانی میں ہے, جو زندگی کا یہ راز پا گیا ، وہی اصل میں خوش اور مطمئن شخص ہے۔

Author

  • Abid Hussain Qureshi

    عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts