میڈیا، لیڈیا اور فیڈیا


ہوا خفا تھی، مگر اتنی سنگدل بھی نہ تھی
ہمیں کو۔۔۔شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا
(قیصر الجعفری)
یونانی کہاوت ہے۔
’’ایک بھیڑیا اپنی شکل بدل سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے ارادے کبھی نہیں بدلتا۔۔۔
عجب کرپشن کی غضب کہانی کے نام پرعمران خان اور جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پورے میڈیا اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہے۔
کچھ ایسی ہی کراماتی اور معجزاتی کہانیاں ہم نے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے ادوار کے حوالے سے بھی سُنی ہوئی ہیں۔”پیرا شوٹر صحافیوں“ اور عظیم اسکرپٹ رائٹروں کے پاس لگتا ہے۔ الفاظ کے ذخیرے ختم ہوگئے ہیں۔ وہی پرانی گھسی پٹی شہہ سرخیاں ہیں۔جذبات اور تاثیر سے عاری لہجے اور لفظ ہیں۔
ہمارا نیشنل میڈیا، ایک ایسی ہانپتی طوائف کی تصویر بن گیا ہے۔ جس کے گاہک اور کمرے، دن میں درجنوں بار تبدیل ہوتے ہیں۔ اتنی ذلت، توآج تک، دنیا کے کسی پیشے نے نہیں کمائی ہوگی۔ جتنی ہمارا قومی میڈیا، دن، رات تسلسل کے ساتھ کما رہاہے۔ پے رول پر موجود ہمارے صحافی اور میڈیا سیٹھ، طے کرچکے ہیں کہ عزت، آنی جانی شے ہے۔ بس ’’مینوں نوٹ وکھا، میرا موڈ بنے“۔
دوستوں کو شاید، ابھی تک ادراک نہیں ہے۔ فرح گوگی اور ٹاپ سٹی کی آڑ میں، جو بیانیہ تھوک کے حساب سے میڈیا مارکیٹ میں پھینکا گیا ہے۔ لوگ اس پر ٹھٹھے لگا کر ہنستے ہیں۔ یہ پروڈکٹ تو کب کا فیل ہوچکا ہے۔ اب ناصر شاہ، عطا تارڑ اور بیچارے بے نقاب اینکروں کی باتوں میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پہلے بیانیہ بنایا گیا کہ آصف زرداری، سب کچھ لوٹ کر کھا گیا ہے۔ پھر کہا گیا کہ آصف زرداری تو معصوم ہے۔ شریفوں نے لوٹ مار میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
پھر، اس تھوکے کو چاٹ کر، آصف زرداری اور شریفوں کے گن گائے گئے۔ 2008ء سے 2018ء تک قوم کو ایک بار پھرباور کروایا گیا کہ دس سال تباہی کے تھے۔ اب ہم نے قوم کو صادق اور امین وزیراعظم دے دیا ہے۔ آج وہی صادق اور امین وزیراعظم، کرپٹ ترین انسان ثابت کیا جارہا ہے۔
18 مہینے والے فرشتوں کی تباہی و بربادی پر عوام دھاڑیں، مار، مار کر رو رہےہیں۔ مگر اس کا تسلسل پھر بھی برقرار رکھا جارہا ہے۔
ویسے یہ کتنی عجیب بات ہےکہ میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ نے جن کو ماضی میں مسلسل، ملک دشمن، بے ایمان اورنالائق ثابت کیا۔ اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے اثاثے نہیں، بلکہ’’ایمٹی اثاثے‘‘ بن چکے ہیں۔
وہ دن دُور نہیں، جب عمران خان سے بھی اسٹیبلشمنٹ حلالہ کرے گی اور خان صاحب، برضا و رغبت، قبول ہے، قبول ہے کی تکرار کرتے دکھائی دیں گے۔
یہی ہمارا، تاریخی اور قومی کریکٹر ہے۔
اِدھر چھڑی تبدیل ہوگی۔ اُدھر مصیبت کی گھڑی بدل جائے گی۔
یہ میڈیا بے چارا، اسٹیبلشمنٹ کی شادی میں کیوں دیوانہ بنا، رقص پر رقص کر رہا ہے۔
اپنی ساکھ مکمل طورپر تباہ کرچکا ہے۔ مگرماننے کو تیار نہیں ہے۔ اب تو ہمیں لوگوں کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہےکہ ’’ہم‘‘ صحافی ہیں۔ مگر ٹی۔ وی اسکرین پر براجمان اینکروں اور مالکان میں رتی بھر بھی شرم کی رمق باقی نہیں رہی۔
اسٹیبلشمنٹ کو نظر ثانی کرنا ہوگی۔ بیانیہ بنانا، برباد ساکھ کے مالک، میڈیا اور مرتضیٰ سولنگی جیسے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ پرویز خٹک ، علیم خان، جہانگیر ترین صرف پٹے ہوئےہی نہیں، بلکہ لنگڑے گھوڑے ہیں۔ یہ آپ کو سیاسی ریس جیت کر نہیں دے سکتے۔
طاہر اشرفی جیسے لوگوں سے وہی کام لیں۔ جو، ان کی اصل پہچان ہے۔ لوگ انھیں دیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ ان کی قبولیت پر ایمان لائے بیٹھے ہیں۔
ایک بات طے ہوچکی ہےکہ تحریک انصاف، عمران خان کا نام ہے۔ لاڈلے نگران وزیراعلی محسن نقوی اور نون لیگ کی الیکٹرونک ووٹنگ کے نتائج نوے فیصد سے بھی زیادہ بیٹ کے حق میں آئے ہیں۔اگر اپنی گھریلو وکٹ پر یہ حال ہے تو باہر کیا ہوگا۔
لوگ نو مئی کو ہی نہیں مانتے۔
اب کوئی خانزادہ، میر، بھٹی، غریدہ، لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ البتہ میڈیا سیٹھ اور اینکرز اسٹیبلشمنٹ کو کمال طریقے سے بے وقوف بنا رہے ہیں اور خوب’’انجوائے‘‘ بھی کررہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا۔ جب میڈیا کے لوگوں کو غیر محسوس انداز میں ’’فیڈیا‘‘ والے، فیڈنگ کرتے تھے۔ اسی طرح سے دونمبر لیڈروں والی ’’لیڈیا‘‘ کو سرگرم کرکے فیڈیا جو چاہتا ماحول بنا لیتا۔ میڈیا، ساتھ دیتا، مگراحتیاط کا دامن بھی سنبھالے رکھتا۔
مگر 2009ء تا 2023ء والی اسٹیبلشمنٹ نے بند مٹھی کھول دی۔ اب تُرپ کے پتوں کی ریت ان کے ہاتھ سے پھسل کر گرچکی ہے۔ صرف چھڑی باقی ہے۔ آپ نے جتنی گھمانی ہے۔ یا گُھما سکتے ہیں۔ وہ چھڑی گھما چکے ہیں۔ عامر ڈوگر جیسی فلم دوبارہ چلانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ فواد چوہدری پر کھاد چوری سے، سیاسی حقائق نہیں بدلے جاسکتے۔
اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں۔ وہ ’’حفظ و مراتب‘‘ کے تمام پردے گرا دے اور چھپن چھپائی کا کھیل ختم کرے۔ سامنے آکر سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لے۔
دوسرا یہ ہے کہ وہ واپس، اُسی جگہ چلی جائے۔ جہاں 1947ء میں پاکستان بنتے وقت تھی۔
تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آپ 65 فیصد یوتھ والے ملک کو، جو کہ ٹیکنالوجی والی نسل ہے۔ اس میں 35 فیصد تمام اونچ نیچ دیکھنے والی نسل کو ’’انڈر اسٹیٹمنٹ‘‘ نہ کریں۔
آپ کو یقینی طورپر ایک اور تجربہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر یہ بھی ایک مکمل ناکام تجربہ ہی ہوگا۔ پہلےکونسا تجربہ کامیاب ہوا ہے۔؟ جو یہ کامیاب ہوگا۔
آپ نے جو خول یا خُود اپنے اوپر چڑھالیا ہے۔ اس کو پہن لینے سے حالات نہیں بدلیں گے۔
آپ کو اپنی مشاورت بڑھانا ہوگی۔ مخالف آوازوں کو صرف سننا ہی نہیں، سمجھنا ہوگا۔ ذات اور ریاست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ہم سب کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے۔ ذات فنا ہونے کے لئے ہے۔ ریاستیں آگے چلا کرتی ہیں۔ ذاتوں کو مٹی کی چادر اوڑھنا پڑتی ہے۔ جس نسل کی عمریں ساٹھ سے 75 سال ہیں۔ اُن کے پاس اور کتنا وقت بچا ہے۔ وہ خود سوچ لیں۔
آپ کے فیصلوں نے طے کرنا ہے کہ ریاست اور قوم کو ریلیف دینا ہے یا اپنی انا، ضد کو ماضی والوں کی طرح دوام بخشنا ہے۔
آج جو جنرل باجوہ اور فیض حمید کو گالیاں دے رہے ہیں۔ وہ کبھی ان غروب ہونیوالی ہستیوں کے بوٹ پالش اور ان کی مالش کیا کرتے تھے۔ کل چھڑی کسی اور کے ہاتھ میں ہوگی۔ تو، یہ آپ کی وہ ”قوالی“ کریں گے۔ جو باجوہ، فیض حمید اور عمران کی ہو رہی ہے۔
میڈیا، لیڈیا اور فیڈیا، سب فراڈ ہے۔ بہتر ہے معاملات میز پر طے کرلیں۔ آخر جو چاہے کرلیں۔ ایک دن پھر میز پر ہی آنا پڑے گا۔
مگر اس وقت تک، ریاست، معیشت اور مظلوم عوام کا شاید ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوگا۔۔۔۔
اب مستقل خزاں ہے چمن کے نصیب میں
خود، باغباں نے، فصلِ بہاراں کو کھا لیا
آزادی، عدل، روٹی کی قلت شدید ہے
کس بدنظر نے، شہرِ نگاراں کو کھا لیا ؟
اب جس کو دیکھتا ہوں پریشان ہے آج کل
اس مُفلسی نے حلقہِ یاراں کو کھا لیا
(سجاد لاکھا)

Author

  • ناصر جمال صاحب شاندار طرز تحریر کے مالک ہیں، آپکے قلم کی کاٹ بہت متاثر کن ہے۔

    View all posts