اپنے آپ پر غور و فکر کی ضرورت


چند روز قبل کسی دوست نے باتوں باتوں میں کیا پتے کی بات کی۔ کہ انسان کو ہر آٹھ دس سال بعد اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیئے کہ اس عرصہ کے دوران اردگرد کی دنیا کتنی بدل چکی ہے اور کیا وہ بھی اس بدلتی دنیا کے ساتھ اپنے رویوں میں تبدیلی محسوس کر رہا ہے یا ابھی تک پرانی ڈگر پر ہی چل رہا ہے۔ بات بڑی دلچسپ بھی تھی اور معنی خیز بھی۔ جب اسے اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کی تو کچھ حیرانگی ضرور ہوئی کہ ہم نے تو کبھی اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ اس بات پر غور کریں کہ وقت کے بدلتے دھارے کے ساتھ کیا ہم نے اپنے آپ کو بدلنے کی شعوری کوشش کی۔ ہم تو اپنی الجھنوں میں ہی الجھے رہے اور بقول منیر نیازی ،۔
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں تیرے لیے۔۔ تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا۔
جونہی زمانہ طالب علمی ختم ہوا اور عملی زندگی کی سنگلاخ زمینوں ، دشوار گاٹیوں ، بے رحم زمینی حقائق ، سخت اور ناقابل تسخیر چیلنجر سے آنکھیں چار کرنے کا وقت شروع ہوا اور خوش قسمتی سے جلد ہی سرکاری ملازمت مل گئی جسکے کے اپنے ہی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، اور ملازمت بھی شعبہ عدل میں۔ کہ جہاں بعض اوقات واقف کاروں اور اچھے خاصے تعلق داروں سے بھی اجنبیوں والا سلوک کرنا پڑتا ہے کہ میزان عدل میں جھول نہ آئے۔ لوگ اس وقت آپکی تند و ترش اور سخت باتیں بھی برداشت کر لیتے ہیں کہ بندہ ابھی کرسی پر ہوتا ہے۔ ، مگر سلسلہ ملازمت ختم ہونے پر وہ پتے بھی ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں جن پر کبھی بڑا تکیہ ہوتا تھا۔ اگرچہ اپنا معاملہ کافی بہتر رہا کہ دوست احباب اور عزیز رشتہ داروں نے پہلے سے بڑھ کر پزیرائی کی ،لیکن اگر چیزیں آپکی مرضی و منشا کے مطابق نہ ہوں تو اس میں نہ تو کوئی حیرانگی والی بات ہوتی ہے نہ پریشانی والی کہ یہ یہی دستور زمانہ ہے۔ یہی چلن ہے، یہی رواج ہے، یہی روایات ہیں اور یہی رویے اور معاملات ہیں۔ اسی طرح کے حالات میں بقول مجید امجد۔
گھات پہ ہو منتظر چلے پہ تیر،۔
ہرنیوں کو چوکڑی بھرنی تو ہے،۔
دوست یہ سب سچ ہے لیکن زندگی ،۔
کاٹنی تو ہے، بسر کرنی تو ہے۔۔
ہمارے خیال میں انسان کی زندگی میں وہ لمحہ، وہ پل ضرور آنا چاہیے جہاں ذرا رک کر لوگوں کے بدلتے رویوں پر نکتہ چیں اور نوحہ کناں ہونے کی بجائے اپنے رویوں پر غور و خوض اور فکر و تدبر کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اگرچہ انسانی زندگی میں خود شناسی ، خود احتسابی اور خود آگاہی کی منزل بہت مشکل سے آتی ہے اور اکثر اوقات انسان اپنی خودی اور انا کے منہ زور گھوڑے پر سوار نظر آتا ہے مگر چلیں خود احتسابی تو ذرا مشکل کام ہے ، خود شناسی اور خود آگاہی تو ممکن ہے۔ اور اگر انسان اپنے رویوں پر کم از کم اپنی زندگی کے دس سال گزرنے پر ہی غور وفکر کر لے تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے ۔ اگر دس سال پہلے آپ جوان تھے تو دس سال بعد آپ ڈھلتی عمر میں داخل ہو گئے اور اس کے تقاضے بھی بدل گئے ۔ اسی طرح آپ کے بچوں کی بڑھتی عمر کے ساتھ انکی ضروریات کے ساتھ ساتھ انکی سوچ میں تبدیلی بھی آتی جائے گی ۔ آپکے اردگرد دوست احباب ، عزیز رشتہ دار وہ بھی تو ان دس سالوں میں بدل چکے ہونگے۔ اور مزید دس سال گزرنے پر تو ایک زمانہ گزر چکا ہوگا۔ رفتار زمانہ بہت تیز ہے، بہت سی قدریں وقت کے ساتھ ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے پامال ہوئیں ۔معاشرتی بے حسی اور مفاد پرستی نے بہت سے انسانی رشتوں کو کھوکھلا کر دیا۔ جب سوسائٹی میں تیزی سے معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں،تو بہت سی انہونی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ آپ ان ساری تبدیلیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔۔
لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپکے آس پاس تو ہر چیز بدل جائے مگر آپ وہیں ساکت و جامد رہیں۔ آپکو بھی زمانہ کے ساتھ بدلنا ہوگا۔ اپنے رویے بدلنا ہونگے، اپنے اندر وقت کی رفتار کے ساتھ تبدیلی لانا ہوگی۔ آپ سے جڑے لوگ خصوصاً آپکے بیوی بچے، آپکے رشتہ دار، دوست احباب سبھی یہ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور فرض کریں کوئی بھی آپ کی ذات میں دلچسپی نہیں رکھتا پھر بھی اپنے رویوں پر وقتاً فوقتاً نظر رکھنی ہوگی کہ کہیں ان میں ضد اور ہٹ دھرمی تو نہیں۔ کہاں کہاں یہ رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ کب اور کیسے بدلنے ہیں یہ ہر انسان پر خود منحصر ہے مگر یہ بات طے ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے بلکہ پرامن اور خوشحالی اور خوشگواری کی زندگی گزارنے کے لیے اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔۔
ویسے ایک بہترین اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے انسان کے اندر قناعت ، صبر اور شکر ہونا ضروری ہے۔ ساتھ کچھ رکھ رکھاؤ ، رشتوں کی پہچان اور احترام ، عاجزی اور انکساری ، مروت و اخلاص بہت ضروری ہے۔ اور اگر کچھ بھی نہ ہو تو کم از کم اپنے الفاظ کے چناؤ میں، اپنے چہرے کے تاثرات میں، اپنے گفتگو کے انداز میں ہی کچھ خوشگواری ، کچھ اپنائیت ، کچھ نرمی، کچھ مسکراہٹ ، کچھ شگفتگی پیدا کر کے دیکھ لیں۔ اور اگر کچھ بھی ممکن نہ ہو تو اپنے رویوں میں مثبت سوچ کا تڑکا لگا کر دیکھیں کہ منفی سوچ اور منفی رویے انسان کی ساری صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتے ہیں۔

Author

  • عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts