خواتین کے بینک پر مردوں کا قبضہ —تزئین اختر

ر ائے عامہ /تزئین اختر
پاکستان ایک منفرد ملک ہے جہاں کہیں بھی کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مردوں کے کام عورتیں کر سکتی ہیں اور عورتوں کی جگہ مرد براجمان ہو سکتے ہیں – اس سلسلے میں تازہ ترین مثال فرسٹ وومن بینک آف پاکستان کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ نام سے واضح ہے، یہ آنجہانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے قائم کیا تھا جو خود پوری مسلم دنیا کی پہلی وزیر اعظم تھیں۔ ان کا اپنی حکومت کے دو دوروں میں مختلف اقدامات کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کا وژن تھا اور فرسٹ وومن بنک ان اقدامات میں سے ایک تھا۔ بینک اس اصول کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ یہ خواتین کے لیے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بینک خواتین کے ذریعے چلایا جائے گا جس میں بینک کی سربراہ بھی ایک خاتون ہوگی لیکن اس وقت اس بینک میں ایک مرد فرخ اقبال خان کی حکومت ہے ۔
خواتین کے بینک پرمردمسلط کرنے کی یہ “مہربانی” دسمبر 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے دوران کی گئی تھی جو پاکستان کی خواتین کے پسندیدہ رہنما ہیں۔ یہاں خواتین خود دیکھ سکتی ہیں کہ انہوں نے “ہینڈسم” کے لیے اپنی غیر مشروط محبت سے کیا کمایا۔
فرخ اقبال کو 3 سال کے لیے بنک کا صدر مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ مدت پوری ہونے کے باوجود وہ اس عہدے پربرا جمان ہیں۔ وزارت خزانہ ان کی مدت ملازمت ختم کر رہی ہے اور نہ وہ خود جا رہے ہیں۔بنک کے متاثرہ عملے میں سے کچھ نے اس مصنف سے رابطہ کیا اور الزام لگایا کہ فرخ اقبال خان کو انکے اصلی عسکری بنک میں خراب کارکردگی کی وجہ سے سائیڈ لائن کردیاگیاتھا اور وومن بنک میں پوسٹنگ حاصل کرنے کے بعد اب وہ اپنے جیسے تمام سٹاف کو وومن بنک میں ایسے لا رہے ہیں جیسے یہ بنک عسکری بنک کا ڈمپنگ گراؤنڈ ہے۔
فرخ اقبال خان کا تعلق عسکری بنک سے ہے جہاں ان کا سروس ریکارڈ تسلی بخش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے پیرنٹ بنک میں کھڈے لائن لگادیاگیاتھا۔ لیکن جب کسی کے رابطے ہوں تو وہ پوسٹ حاصل کر سکتا ہے خواہ وہ مستحق ہو یا نہ ہو۔
خواتین بنک کے یہ مرد سربراہ اب فرسٹ وومن بنک کے معصوم عملے سے بدلہ لے رہے ہیں۔ اب تک 17 افسران کو چھوڑنے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد خواتین افسران کی ہے۔فرخ اقبال خان عسکری بنک سے وومن بنک میں اپنے من پسند افراد کی تقرری کر رہے ہیں۔یہاں البتہ صدر صاحب خواتین کا بھی خیال کر رہے ہیں اور داخلی ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنی مرضی کی کچھ خواتین کو بھی تعینات کیا ہے لیکن یہ خواتین بھی پہلے سے خدمات انجام دینے والی خواتین افسران کی طرف سے سخت تنقید کی زدمیں ہیں- یہاں ہم وہ بات یاد کر سکتے ہیں جو ہم اکثر کہتے ہیں “عورت ہی عورت کی دشمن ہے”۔چا ہے وہ ساس اور بہو کے رشتے میں گھر پر ہوں یا کسی دفتر میں شریک کارکن کے طور پر-
بنک کے متاثرہ عملے کا الزام ہے کہ فرخ اقبال خان کے پاس کراچی سے اسلام آباد تک کٹھ پتلیوں کا ایک پورا نیٹ ورک ہے وہ صدر فرخ اقبال خان کی انگلیوں پر خود بھی ناچتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تاکہ بنک افسر ان پر صدرکی دھاک بیٹھی رہے۔ اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکے اور اس بنک میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں کوئی کچھ پوچھنے کی جرات نہ کر سکے۔ شاہین ضمیر ہیڈ مارکیٹنگ اور فرقان یاسر ہیڈ لیگل اس فہرست میں سرفہرست ہیں۔ناہید نازلی اور شرف خٹک ڈمی ریجنل مینیجر ہیں جنہیں اس انتظامیہ نے نامعلوم وجوہات پر یہاں کھپا رکھا ہے۔ ان الزامات کے ساتھ ہماری مطابقت ضروری نہیں لیکن بات وہیں سے نکلتی ہے جہاں کچھ ہوتا ہے-
عسکری بنک انتظامیہ کی جانب سے مسترد کیے جانے والے اب وومن بنک کے سینئر عملے کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں- جو خواتین بینک میں کیریئر آفیسر ہیں اور قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔وہ اس گروہ کا ہدف ہیں۔
اچھے اور برے کا معیار یہ ہے کہ صدر کی گڈ بک میں کون ہے۔اس کا مطلب ہے کہ یہاں بھی ریڈ فائل اور گرین فائل والا کھیل ہے؟ مثال دو افسران زاہدہ چنا اور رخسانہ مولا بخش ہیں۔ یہ غفلت کا ایک پرانا کیس تھا جس میں دونوں افسران کی یکساں ذمہ داری تھی لیکن صرف زاہدہ کو سزا دی گئی جبکہ رخسانہ کو نہ صرف بری کیا گیا بلکہ ترقی بھی دی گئی۔
گوجرانوالہ کی ایک افسر مبینہ طارق کی بھی یہی مثال ہے۔ انکو بغیر کسی متعلقہ اہلیت یا کارکردگی کے تعیناتی اور ترقی بھی دی گئی۔ ان خاتون کے سست رویے کی وجہ سے بینک کو عدالت میں کیس کا سامنا ہے۔ گوجرانوالہ میں ایک تاجر سردار عمران اقبال کو مقررہ وقت میں برآمدی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہیں جس سے تاجر کو بھاری مالی نقصان پہنچا۔ مبینہ طارق کی تعیناتی سے قبل عملہ صارفین کو اچھی خدمات فراہم کر رہا تھا اور کوئی شکایت نہیں تھی۔
ہم نے مذکورہ الزامات کے جواب میں فرخ اقبال خان کا موقف جاننے کے لیے بینک کی ویب سائٹ پر دی گئی تمام ای میلز پر ای میل بھیجی لیکن کسی نے بھی جواب بھیجنے کی زحمت نہیں کی۔ کراچی سے صرف ایک فون آیا جس میں خاتون نے بجائے اس سٹوری پر کام کرنے والے (اس مصنف) سے بات کرنےکے ,اخبار کے مالک کے بارے میں پوچھا ۔ جب انہیں بتایا گیا کہ آپ اسی شخص سے بات کر رہی ہیں جس نے فرخ اقبال خان پر الزامات کے بارے میں استفسار کیا تھا تو انہوں نے کال کاٹ دی۔
صدر فرخ یا ان کی ٹیم نے ہمارے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن ہم ان کو یہ بات بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ “سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں” کیونکہ آپ نے خواتین کا حق چھینا ہے – ظاہر ہے اب آپ کی خیر نہیں….. …..

Author

  • Tazeen Akhtar

    تزین اختر پاکستان میں سنجیدہ صحافت کی پہچان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں مختلف صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر فرائض ادا کرتے آ رہے ہیں۔مقامی، علاقائی اور عالمی امور پر لکھتے ہیں۔

    View all posts