بوآؤ، ہائی نان (شِنہوا) علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) عالمی آزاد تجارت میں ایک مواقع کے طور پر ابھرا ہے جس نے بڑھتی تحفظ پسندی اور جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال میں عالمی معیشت میں رفتار پیدا کی ہے۔
چائنہ ادارہ برائے اصلاحات اور ترقی کے نائب سربراہ کوانگ شیان منگ نے کہا کہ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری اقتصادی عالمگریت میں ایک اہم محرک قوت اور ادارہ جاتی راستہ بن گیا ہے جس نے علاقائی مارکیٹ کے مزید کھلے پن اور علاقائی آزادی کو آگے بڑھایا ہے۔
کوانگ نے کہا کہ تجارتی معاہدے نے نفاذ کے 3 برس بعد ابتدائی فوائد مہیا کئے ہیں، 2024 کے دوران خطے میں مجموعی تجارتی مالیت میں گزشتہ برس کی نسبت 3 فیصد اضافہ ہوا ہے جو عالمی تجارت کو درپیش مشکلات میں اہم اعداد وشمار ہیں۔
کوانگ کے مطابق اس معاہدے کے تحت علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری خطہ سرحد پار سرمائے کے بہاؤ کا متحرک ترین مرکز بن چکا ہے۔ 2023 میں آر سی ای پی خطے نے عالمی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے 35 فیصد کو راغب کیا اور عالمی بیرونی سرمایہ کاری میں 30 فیصد کی شراکت داری کی۔
آر سی ای پی دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ ہے جس میں جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے 10 رکن ممالک اور اس کے 5 آزاد تجارتی معاہدے کے شراکت داروں یعنی چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل ہے۔
بوآؤ فورم برائے ایشیا میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق آر سی ای پی نے ایشیائی معاشی انضمام میں یک بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے رکن معیشتوں میں ایک نئی روح پھونکی ہے جس سے غیر یقینی عالمی معیشت اور تجارتی منظر نامے میں بھروسہ پیدا ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجارتی معاہدے نے خطے میں آزاد تجارتی معاہدے کے انتظامات کو مربوط کیا، اقتصادی وسائل کی تشکیل کو بہتر بنایا ہے اور کھلے تعاون کو فروغ دینے سے متعلق ایشیائی معیشتوں کا عزم ظاہر کیا۔
