”پیرس“ میں صحت کی سہولیات


ماضی کا ایک مشہور گانا ہے آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔ یہ گانا اپنے پچھلے ہفتے کے کالم کے بعد بہت یاد آیا جب پیپلز پارٹی کے میرے دوستوں نے مجھ پر چڑھائی کی۔ ان کا موقف تھا کہ میں پیپلز پارٹی، سندھ اور سندھیوں کے خلاف ہوں اور اسی لئے اپنے کالم میں عباسی شہید ہسپتال کو مثال بنا کر سندھ میں پی پی پی کی حکومت کو نشانہ بنایا۔ میں نے بہت کہا بھائی آپ کا بیٹ رپورٹر رہا ہوں، کبھی میری خبر میں کوئی تعصب کی جھلک دیکھی، مگر جواب ملا کہ پنجابی ہو، پنجاب میں صحت کی سہولیات پر لکھ کر دکھاؤ۔ یہاں تو تمہیں سب ”ہرا ہرا“ نظر آئے گا۔ کبھی سکھر اور گمبٹ میں دی جانے والی سہولیات کا ذکر بھی کرو، لہٰذا سوچا کہ گمبٹ اور سکھر تو جا نہیں سکتے، اپنے لاہور کی صحت سہولیات پر نظر دوڑاتے ہیں۔
لاہور پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دل کہلاتا ہے۔ جناب میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف اسے گزشتہ چار دہائیوں سے پیرس بنانے کے دعوے کر رہے ہیں،مگر اس ”پیرس“ کی طبی سہولیات کے بارے میں کچھ اچھا لکھنا چاہا تو جو دستیاب ہوا وہ بہت اچھا نہیں تھا۔ لاہور میں دِل کے امراض کا ہسپتال جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ان کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان نے بنایا تھا، تب سے اس میں کافی اضافہ ہوچکا ہے۔ میاں شہبازشریف کے دور وزارتِ اعلیٰ میں یہاں زائد المیعاد ادویات اور دل میں ڈالے جانے والے زائد المیعاد سٹنٹس کا ایک سکینڈل سامنے آیا، مگر ایک ”محترم“ نام کی وجہ سے معاملہ کسی انجام تک نہیں پہنچا۔ اب گزشتہ ماہ اسی ہسپتال، یعنی ”پی آئی سی“ کے سات آپریشن تھیٹر انفیکشن کی وجہ سے کئی دن بند رہے اور آپریشن نہ ہوسکے۔ نگران حکومت کی ایک اہم شخصیت کے مطابق کامیاب آپریشن کے باوجود انفیکشن کی وجہ سے لوگ ”مشکل“ میں پڑ رہے تھے۔ مشکل میں گرفتار ہونے والوں میں سے کتنے اللہ کو پیارے ہوئے، کوئی بتانا نہیں چاہتا۔ پی آئی سی میں روزانہ 10 سے 12 آپریشن ہوتے ہیں۔ مریض کو آپریشن کے بعد انفیکشن سے بچانا ضروری ہے ورنہ! انفیکشن سے بچانے کے لئے بستر، ٹائلیں، فرش، دیواریں سب تبدیل ہونا چاہئے تھا۔ اب کیا ہوا کیا نہیں، کوئی منہ کھولنے کو تیار نہیں مگر آپریشن شروع ہوچکے ہیں۔ چند ماہ پہلے اسی ہسپتال میں آپریشن تھیٹر سے استعمال شدہ سامان (اکسیجنیٹر، ٹیوبنگ) وغیرہ ملے۔ کس کی ملی بھگت سے یہ استعمال شدہ سامان اتنے نازک آپریشن میں دوبارہ استعمال ہوا، اس کی تحقیقات کہاں گئیں ……؟
گنگا رام ہسپتال لاہور کا ایک پرانا ہسپتال ہے جہاں اچانک بجلی بند ہو گئی۔اس وقت آرتھوپیڈک تھیٹر میں ایک مریض کی ٹانگ کا آپریشن جاری تھا۔ ڈاکٹروں نے موبائل فون کی روشنی میں بجلی کی واپسی تک آپریشن جاری رکھا۔ انتظامیہ نے الزام بیچارے ”سرکٹ بریکر“ پر ڈال دیا کہ اسے کسی نے بند کیا تھا،جبکہ باخبروں کے مطابق جنریٹر خراب تھا یا اس میں ڈیزل نہیں تھا۔ایسے معاملات میں پاکستان میں معاملہ اللہ پر چھوڑا جاتا ہے، سو ہم بھی کیا کہہ سکتے ہیں۔
جنرل ہسپتال بھی لاہور کا اہم ترین ہسپتال ہے جہاں پورے صوبے سے دماغ، ریڑھ کی ہڈی اور دیگر اہم آپریشنز کے لئے مریض آتے ہیں۔اس ہسپتال کی ایک ”خوبی“ ہے بارشوں کے موسم میں یہاں اس قدر پانی گھس آتا ہے کہ کام رُک جاتے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کی بدقسمتی کہ اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والی معصوم بچی رضوانہ یہاں داخل کرا دی گئی۔ نگران وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی اس کو دیکھنے گئے تو پتہ چلا کہ صرف رضوانہ ہی نہیں، ہسپتال کے حالات بھی کافی خراب ہیں۔ انتظامیہ مطمئن تھی کہ وزیراعلیٰ مصروف شخص ہوتا ہے وہ رضوانہ کو دیکھ کر چلے جائیں گے، مگر اتفاق سے یہ وزیراعلیٰ خود صحافی بھی ہے، وہ ہسپتال کے معائنے کو نکل پڑے اور پھر جو معاملات سامنے آئے وہ پریشان کن تھے، مریضوں نے شکایات کے ڈھیر لگا دئیے۔ وارڈوں میں ائرکنڈیشن بند یا خراب تھے، ٹوٹے بستروں کو اینٹوں کے سہارے استعمال کے قابل بنایا گیا تھا، صفائی کا نظام بے حد ناقص تھا، ادویات نہ ملنے کی شکایات بھی تھیں، پارکنگ مافیا کی دھونس دھاندلی کی شکایات بھی بے شمار تھیں، لہٰذا وزیراعلیٰ نے ایم ایس اور ایڈیشنل ایم ایس کو معطل کردیا۔
لاہور کے عین وسط میں سروسز ہسپتال ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کے ادارے کے کسی رپورٹر کی مخبری کی بدولت یہ بھی نہ بچ سکا۔ (ویسے اس ہسپتال کے پرنسپل اور ایم ایس کو آپریشن تھیٹر میں بجلی بند ہونے اور موبائل کی روشنی میں آپریشن پر پہلے ہی معطل کیا جا چکا تھا) وزیراعلیٰ کو ہسپتال میں خراب بیڈ، بدبودار میٹریس، آپریشن تھیٹرز اور وارڈز میں ناقص صفائی اور بند ائرکنڈیشن ملے۔ آپریشن تھیٹرز کے حالات اتنے خراب تھے، وزیراعلیٰ کا تبصرہ تھا کسی دشمن کو بھی یہاں نہ بھیجوں۔ اے سی بند ہونے کی سزا ڈائریکٹر فنانس نے بھگتی، جبکہ پارکنگ ٹھیکیدار کو ناجائز وصولیوں پر ٹھیکے سے ہاتھ دھونا پڑے۔
لیجئے جناب میں نے کراچی کے ایک عباسی شہید ہسپتال کے بدلے میں لاہور کے چار بڑے ہسپتالوں کی ابتر صورتحال بیان کردی۔ مجھے امید ہے اب میرے پیپلز پارٹی کے دوست خوش ہوجائیں گے، لیکن انہیں بتادوں یہ انہیں خوش کرنے کے لئے نہیں، یہ پنجاب کی اس بے بس رعایا کے لئے ہے جو صوبے بھر سے اچھے علاج کی اُمید میں لاہور آتی ہے اور پھر مریض وارڈ میں بے یارومددگار اور خاندان کے افراد یعنی تیماردار کسی درخت یا شیڈ کے نیچے چادریں بچھا کر اپنے مریض کے علاج کے لئے بھاگ دوڑ اور منت ترلا کرتے ہیں۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں مظلوم رعایا کا ایک ہی حال ہے، صوبے کے نام سے کیا فرق پڑتا ہے۔ 76 برسوں سے مظلوم عوام کے حالات نہیں بدلے۔ اب تو لوگوں نے کسی مسیحا کی آمد کی آس بھی توڑ دی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، لیکن ہم جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں بلکہ شاید اس سطح سے بھی نیچے آگئے ہیں۔ ہم اپنے باغوں، کالجوں، خوبصورت تاریخی عمارتوں، انارکلی بازار، مال روڈ اور دریائے راوی کے حسن کے لئے مشہور لاہور کو پیرس بنانے چلے تھے، لیکن اسے پیرس کیا بناتے، ہم نے تو اسے لاہور بھی نہیں رہنے دیا۔

Author