”واچ ڈاگ“


انگریزی کی کہاوت ہے ”Seeing in Believing“ جسے اُردو میں کہا جا سکتا ہے کہ دیکھے پر ہی یقین کیا جا سکتا ہے۔ یہ محاورہ جس زمانے کا ہے تب کسی چیز کو دیکھنے کے لئے موقع پر موجود ہونا یقینی ہوتا تھا اور اکثر ناقابل یقین کو نظر سے دیکھنے کے لئے ”سفر“ کرنا پڑتا تھا۔ (یہ سفر اکثر اُردو سے زیادہ انگریزی والا بھی ہوتا تھا)۔ آنکھ سے دیکھے بغیر یقین بے حد مشکل ہوتا تھا، مگر موجودہ صدی میں میڈیا وہ کچھ دکھا رہا ہے، جس پر ایک بار تو یقین بھی نہیں آتا ، آج کے جدید دور میں بھی حکومتیں ہمیں کچھ اور بتا کر اور مرضی کی تصویر کشی دکھا کر یہ سمجھتی ہیں کہ دن میں رات منوا سکتی ہیں، مگر کیمرے اور خصوصاً موبائل کیمرے نے سچ سامنے لانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ ہماری جیسی ”جمہوری“ ریاستوں کے حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ جناب بلاول بھٹو زرداری جب سے پاکستانی سیاست میں وارد ہوئے ہیں، پی پی پی کے جیالوں نے ان سے بہت اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں بطور وزیر سیاست میں وارد ہوئے اور تب سے اب تک ”بھٹوز“ کو بار بار کی کوششوں کے باوجود سیاست سے تو نہیں نکالا جا سکا البتہ دنیا سے نکالا جا چکا ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو براستہ تختہ دار اور ان کی صاحبزادی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو بذریعہ دہشت گردی پاکستان کی سیاست سے ”مائنس“ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو بذریعہ پولیس مقابلہ اور ان سے چھوٹے بیٹے شاہنواز بھٹو کو بذریعہ زہر خورانی سفر آخرت پر روانہ کیا گیا۔ یہاں بھٹو خاندان کے سفر آخرت کی کہانیاں سنانا مقصود نہیں،بلکہ یہ بتانا ہے کہ جس ”حکمرانی“ کے لئے بھٹو خاندان نے اتنی قربانیاں دیں اور بار بار حکومت بنائی، اس میں عوام خصوصاً سندھ کے عوام کو کیا ملا۔ 2008ء سے سندھ میں مسلسل پی پی پی کی حکومت ہے۔ جناب سید قائم علی شاہ اور جناب سید مراد علی شاہ کے سروں پر وزارت اعلیٰ کی پگ رکھی گئی اور آج ان کی ”کارکردگی“ فخریہ بیان کی جاتی ہے، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ دیگ کا ایک چاول دیکھ کر دیگ کا پتہ لگ جاتا ہے ویسے ہی ایک ٹی وی رپورٹ نے ہمیں چاول کا وہ دانہ دکھا دیا۔ برسوں سے پی پی پی پر ”الزامات“ کا سلسلہ جاری ہے، مگر کراچی کی حالت کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یقین نہیں کیا تھا، یعنی دیکھنے کے باوجود یقین نہیں آتا تھا، کیونکہ پی پی پی کو ہمیشہ ”غریبوں“ کی پارٹی ہی سمجھا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت جناب آصف ذرداری سے ”بظاہر“ بلاول کو منتقل ہوچکی ہے اور وہ ایسا ثابت کرنے کی کوشش بھی کرلیتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے سید مراد علی شاہ کو بغل میں کھڑا کرکے جو دعوے سب سے زیادہ کئے وہ صحت کی سہولیات کی فراہمی دوسرے صوبوں سے بہتر بنانے کے تھے۔ سندھ بھر میں بے مثال صحت سہولیات فراہمی کے دعوؤں کی حقیقت پارٹی کے بانی کے ہاتھوں رکھے گئے ہسپتال کی حالت زار دیکھنے سے سامنے آئی۔ کراچی کے عباسی شہید ہسپتال میں مجھے پانچ سال پہلے ایمرجنسی میں طبیعت اچانک خراب ہونے پر جانا پڑا۔ جناب ڈاکٹر فاروق ستار کی وجہ سے بہت اچھی دیکھ بھال ہوئی، مگر ہسپتال کی شکستہ حالت دیکھ کر یقین نہیں ہوا کہ یہ کراچی کا بڑا ہسپتال ہے، مگر اب سید مراد علی شاہ کے مزید پانچ سال گزرنے پر عباسی شہید ہسپتال کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس نے بلاول بھٹو، مراد علی شاہ، مرتضیٰ وہاب، سعید غنی اور ناصر حسین شاہ کے صحت کی سہولیات کی فراہمی کے دعوے مشکوک بنا دئیے۔ اگر یہ حالت کراچی کی ہے تو اندرون سندھ کا کیا حال ہوگا، ویسے ایک بُرا تجربہ تھر کے دورے کے دوران پہلے بھی ہوا تھا۔
10سال پہلے تھر کے دورے کے دوران مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال جانے کا موقع ملا۔ ان دنوں نومولود اور شیر خوار بچوں کی اموات کی خبریں مسلسل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر چل رہی تھیں۔ وہاں ہسپتال کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ خبریں جھوٹی نہیں ہیں،جس ہسپتال میں ناکافی سہولیات کے علاوہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد ہی ”کافی“ نہ ہو وہاں علاج کیا ہو گا؟ بہرحال آج کا موضوع تو عباسی شہید ہسپتال کی وہ صورتحال ہے جو پیپلز پارٹی کے 15 سالہ اقتدار کے خاتمے پر دکھائی گئی ہے۔ اس ٹی وی رپورٹ کو جھٹلانے کے لئے پی پی پی حکومت کے پاس بہت بڑا ”نیٹ ورک“ ہے۔ ٹی وی رپورٹ میں جو دکھایا گیا وہ حیران کن تھا، کسی بھی ایمرجنسی میں ایکسرے ایک بنیادی ضرورت ہے، مگر یہاں لمبے عرصے سے ایکسرے فلم ہی دستیاب نہیں ہے۔ مریضوں کے لواحقین کمپیوٹر سکرین سے ایکسرے میں لی گئی تصویر کو موبائل فون پر تصویر کھینچ کر ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر مہربان ہو یا مریض کی حالت خراب ہو تو ڈاکٹر خود چل کر آتا اور ایکسرے دیکھ کر جاتا ہے۔ یہ صورتحال ڈاکٹرز اور عملے کے مطابق 8 سال سے ہے۔ یہاں 100 سے زیادہ ایکسرے روزانہ اسی حالت میں لئے جا رہے ہیں۔ جدید سائنس نے انسان کی اندرونی خرابیوں کو ڈاکٹر کے سامنے لانے کے لئے کئی طریقے نکالے ہیں۔ MRI، الٹرا ساؤنڈ، فلوروسکوپی، اینڈوسکوپی کی مشینیں بھی بند پڑی ہیں۔ MRI کی مشین دس سال سے خراب بتائی جاتی ہے۔ یہ ایک مہنگا ٹیسٹ ہے، عام آدمی 10، 15 ہزار روپے کہاں سے لائے گا؟ فلورو سکوپی بھی نہیں کی جاسکتی، یہ بھی 10 سال سے نہیں ہو رہی، کیونکہ مشین خراب ہے۔ انڈوسکوپی بھی ممکن نہیں ہے، الٹرا ساؤنڈ کی چار میں سے دو مشینیں عرصہ سے خراب ہیں اور جو دو مشینیں کام کررہی ہیں ان میں لگانے کے لئے کاغذ کے رول مہیا نہیں کئے جا رہے لہٰذا ڈاکٹر مریض کو رزلٹ کاغذ پر لکھ کر دیتے ہیں، البتہ الٹراساؤنڈ جیل مل جاتی ہے ورنہ یہ بھی مریض خود خرید کر لاتے۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1974ء میں بنائے گئے ہسپتال کے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی مشینری کی حالت ہے۔ عباسی شہید ہسپتال ضلع وسطی کا بڑا ہسپتال ہے۔ جناب نوازشریف نے 1993ء میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی بنیاد رکھی۔ اس کالج کو عباسی شہید ہسپتال سے منسلک کیا گیا، مگر مستقبل کے ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر پریشان ہیں کہ ان خراب حالات میں وہ کہاں سے سیکھیں، ہاؤس جاب کہاں جا کر کریں۔ ہسپتال کی لیبارٹری سابق مئیر مصطفی کمال کے دور میں بنی تھی۔ آج یہاں سہولیات میسر نہیں تقریباً بند پڑی ہے۔ ہسپتال میں صفائی کی صورتحال بے حد خراب ہے، گندگی کے ڈھیر ہیں، گندا پانی کھڑا ہے، لفٹیں خراب ہیں، کئی وارڈ بند پڑے ہیں، دیواریں گندی اور فرشوں پر ٹائلیں اُکھڑ رہی ہیں، کئی جگہ چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ وہ ہسپتال جہاں 10 سے 20 ہزار مریض روزانہ ”آؤٹ ڈور“ میں آتا ہے، وہاں مریض کو اپنے لئے ڈرپ بھی بازار سے منگوانی پڑتی ہے۔ ہسپتال میں مریض کے تیمارداروں کے بیٹھنے کے لئے بنچ تک نہیں اور وہ فرش پر بیٹھنے پر مجبور ہیں، ادویات مریض کے لئے باہر سے خرید کر لانی پڑتی ہیں، ٹیسٹ باہر سے کرانے پڑتے ہیں۔ اس ہسپتال کا بجٹ 52 کروڑ روپے ہے، مگر رپورٹ کے مطابق بمشکل 6 سے 15 فیصد تک ملتا ہے۔
سندھ کے صوبے میں حکومت کی دستاویزات کے مطابق 30 اضلاع میں 30ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہیں، 115تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہیں، 8 ٹیچنگ ہسپتال ہیں، شہروں میں 27 بڑے ہسپتال ہیں، دِل، گردوں سمیت دیگر امراض کے 5 ہسپتال ان کے علاوہ ہیں اور اس کے علاوہ صوبے میں 1374 بنیادی مراکز صحت ہیں۔ یہ اعداد وشمار بہت دِل پذیر ہیں، یعنی ہر ضلع میں ایک سرکاری ہسپتال ہے، بنیادی مراکز صحت بھی کافی ہیں، مگر کیا ان کی حالت عباسی شہید ہسپتال جیسی تو نہیں ہے۔ بلاول بھٹو اور ان کے ”معاونین ہمیں ”سب اچھا“ کی گردان سناتے ہیں، پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اور ہم یقین کرلیتے ہیں، کیونکہ ہمارے ”ناک، کان اور آنکھ“ پہلے اخبارات اور اب الیکٹرانک میڈیا ہے، لیکن اب ایک شُتر بے مہار سوشل میڈیا میدان میں آگیا ہے، اب اس سے سب خوفزدہ ہیں۔یہ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اسلام آباد میں دو جج صاحبان اور خیرپور میں پیروں کے گھروں میں معصوم بچیوں پر ہونے والا ظلم سامنے نہ آتا۔
اصل کھیل ”یقین“ کا ہے۔ سچ نظر آئیگا تو یقین ہوگا، لیکن سچ دکھانے کی کوشش اگر سچ چھپانے کے لئے ہے تو یہ اب ممکن نہیں رہا۔ مجھے اُمید ہے جس طرح عباسی شہید ہسپتال کی صورت حال ایک بڑا چینل سامنے لایا ہے باقی چینل بھی اس راہ پر ہی چلیں گے کہ آخر ہم ”WATCH DOG“ ہی تو ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے اگر اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دینا ہے۔

Author