سٹیل مل پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھی جسے دیدہ دانستہ ‘سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوٹا گیا لٹایا گیا کہ ماضی کا نفع بخش یہ ادارہ قومی معیشت پر بوجھ بن کر رہ گیا ہے
افسوس صد افسوس کہ عمران خان کی تبدیلی کی دعویدار انصاف حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے ۔ ’’ماضی کی حکومتوں نے پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کے اقدامات کو جس عبرتناک انجام سے دوچار کیا موجودہ حکومت بھی اہم قومی ادارے کی بحالی کے لئے بروقت اقدامات اٹھانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ وزیراعظم خان کو جان بوجھ کر سٹیل مل کے بارے میں غلط سلط معلومات دی جارہی ہیں ۔ جس میں وزارت صنعت و پیداوار’ وزارت خزانہ اور سٹیل مل کے حکام پیش پیش ہیں ۔
اب تک خسارہ صرف 217 ارب دکھایا بتایا جارہا ہے جبکہ حقیقی خسارہ 270 ارب ہو چکا ہے جبکہ دی نیشن کے اقتصادی امور کے ماہر رپورٹر کے مطابق واجب الادا قرض اور واجبات سمیت کل خسارہ 500 ارب تک ہو چکا ہے گذشتہ 4 سال کے اکاونٹس 2015 سے 2019 آڈٹ نہیں کرائے گئے جس کی اصل وجوہات کاعلم تو وزارت صنعت و پیداوار کو ہوگا ۔ کہتے ہیں کہ 19 اگست 2013 وزیر خزانہ اسحق ڈار نے آئی ایم ایف کو خط لکھا تھا کہ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے سٹیل مل کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے
جبکہ تین دن بعد 22 اگست 2013 کووزارت صنعت و پیداوار’نے انکشاف کیا کہ بے ایمانی بد عنوانی اور نااہلی فالتو بھرتی نے سٹیل مل کو اس انجام تک پہنچایا ہے
کوئی پوچھنے والا نہیں کو ئی روکنے والا نہیں یہ کوئی صدیوں پرانا قصہ نہیں ابھی ‘‘کل’’ کی بات ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2000 سے 2008ء کے دوران پاکستان سٹیل ملز منافع بخش ادارہ تھی جس نے 20 ارب روپے منافع کمایا اور اپنے قرض ادا کئے۔ 2008 سے 2013ء کے دوران اسے بے رحمی سے لوٹا گیا۔ کس نے کیسے کیسے لوٹا یہ کوئی راز نہیں 2013 سے 2018ء تک نواز شریف حکومت نے اس کی بحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کی وجوہات بھی ظاہر اور واضح ہیں عدم دلچسپی سٹیل مل میں تھی لیکن اس کی اربوں روپے مالیت کی زمیں ہر کوئی نگلنا چاہتا ہے افسوس اور دکھ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی جوں کی توں والی کیفیت برقرار رکھی ہوئی ہے جو وزیراعظم عمران خان کے وعدوں سے انحراف ہے۔ حکومت نادانستہ طورپر ان لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جن کا سٹیل مل کے ساتھ مفادات کا ٹکراو ہے یا پھر اس کے مشیر ہی اسے گمراہ کررہے ہیں۔ سٹیل مل سٹیک ہولڈر گروپ نے اہم فریق کے طورپر مل کی بحالی کا لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے جس کے مطابق اگر صرف سٹیل مل کا ٹیرف مناسب کردیاجائے تو اس کی بحال کا ہدف آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے جس سے سٹیل مل سمیت مارکیٹ میں تمام فریقین کو کام کرنے کا پورا موقع میسرآئے گا۔ اور (ایف بی آر) کو سالانہ سو ارب روپے ریونیو ملے گا۔‘‘
وزیراعظم عمران خان سٹیل مل سمیت نقصان میں جانے والے قومی اداروں کی بحالی کو اولین ترجیح قراردیتے ہیں وہ منافع بخش اداروں کی تباہی کو سابق حکومتوں کی بدانتظامی اور نااہلی قرار دیتے ہیں ۔ وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داود‘ ان افراد میں شامل ہیں جو سٹیل مل کے عروج و زوال کے عینی شاہد ہیں وزیراعظم کو آگاہ کیاگیا کہ سٹیل مل 2008ء تک منافع کمارہی تھی اور 2009ئ میں نقصان میں گئی۔ 2015ء میں اسے بند کردیاگیا تھا۔ حکومت کو اس ادارے کے نقصان کی بنائ پر ہر ماہ ملازمین کی تنخواہ کی مد میں 37 کروڑ کی ادائیگی کی صورت نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان سٹیل مل کے ذمے واجب الادا رقم 217 ارب روپے بتائی گئی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے سٹیل مل کو اس فہرست میں ڈال دیاتھا جن اداروں کی نجکاری کی جانی تھی لیکن تین ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ وہ اس ادارے کو بچائیں گے اور اسے بحال کریں گے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیاگیا ہے جب حکومت کو آئی ایم ایف سے گئے وعدوں کے مطابق اچھی ساکھ کے حامل بین الاقومی آڈیٹرز کے ذریعے اس کا لازما مکمل آڈٹ کرانا ہے اور اس کے نتائج رواں سال دسمبر کے آخر تک سامنے لانے ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں سٹیل مل کے حوالے سے مختلف تجاویز سوچ و بچار کیا گیا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ بھی ان میں سے ایک تجویز تھی۔ اس میں روس اور چین کی کمپنیوں کانام لیاگیا تھا۔ اپریل میں وزیرصنعت نے کہا کہ کم ازکم سو ملین ڈالر سٹیل کی بحالی کے لئے درکار ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ اس کی نجکاری ہی کردی جائے۔ اس بنیاد پر وزارت صنعت نے ایک سمری تیار کی جس کا مقصد ’ٹرانزیکشن ایڈوائزی کنسورشیم‘ کا قیام تھا جس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ وہ نجکاری کے عمل کا مسودہ تیار کرے۔ سٹیل مل کی نجکاری نہ کرنے اور اس کی بحالی کا اعلان کرکے وزیراعظم عمران خان نے قبل ازیں کئے گئے تمام فیصلے کالعدم کردیے ۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کون بحالی کی لاگت برداشت کرے گا؟ بحالی کالائحہ عمل کا مسودہ کون تیار کرے گا؟ کیا وزیراعظم نے اعلان سے قبل اس معاملے میں صنعت اور خزانہ کی وزارتوں سے مشاورت کی تھی؟ اچانک اس معاملے میں یہ تبدیلی کیوں کی گئی؟ دیگر امور میں انتہائی مصروف وزیراعظم کو اس اہم موضوع پر غور وخوض کا وقت کیسے میسرآگیا کہ انہوں نے سٹیل مل سے متعلق اتنا اہم فیصلہ کرلیا؟
پاکستان سٹیل ملز کے بورڈ کے چئیرمین انجینئر ایم اے جبار کا کہنا ہے کہ سٹیل مل کو درپیش مشکلات کی بنیادی وجہ اسلام آباد میں ہے۔ وزرا اور بیوروکریسی فیصلہ سازی میں تاخیر بہت کرتے ہیں۔ ہم نے دسمبر 2018ء میں وزارت صنعت وپیداوار کو مستقل چیف ایگزیکٹو افسر اور چیف فنانشل افسر کی تقرری کے لئے لکھا لیکن اب تک جواب نہیں آیا۔ وزارت صنعت وپیدوار نے مل کے بورڈ سے فیصلہ سازی کے تمام اختیارات بھی لے لئے ہیں۔ ان کا الزام ہے بااختیار افراد اپنے مفاد میں جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں۔بورڈ کے چار اجلاس محض اس لئے منسوخ کردئیے گئے کیونکہ مشیر تجارت عبدالرزاق داود بورڈ اجلاس سے قبل خود بریفنگ لینا چاہتے تھے۔ اس وقت سٹیل مل کا سربراہ وزارت کا سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہے جس کے پاس یہ اضافی چارج ہے۔ چیف فنانشل افسر کے پاس بھی عارضی چارج ہے۔ سٹیل مل کے بند ہونے کی وجہ سے ملازمین کو وفاقی گرانٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور کئی ماہ انہیں تنخواہوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
سٹیل مل کے ایک افسر کے مطابق سیاسی جماعتوں کی بے جا مداخلت بھی سٹیل مل کے مسائل حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔رواں سال مارچ میں ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے سٹیل مل کے چئیرمین کو ہٹادیاگیا تھا۔ قواعد کے خلاف بورڈ اجلاس بلا کر یہ فیصلہ کردیاگیا۔ وزارت صنعت کے ایک افسر کے مطابق کابینہ ڈویژن کی باضابطہ منظوری کے بعد انجینئر ایم اے جبار کی بورڈ رکنیت کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے واپس لے لیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ نوٹیفیکیشن وزیراعظم کے مشیر تجارت وصنعت عبدالرزاق داود کے حکم پر جاری کیاگیا۔ جب ایک رپورٹر نے عبدالرزاق داود سے اس بارے میں سوال کیاتو انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ البتہ ایم اے جبار کا کہنا تھا کہ سینٹ سٹینڈنگ برائے صنعت وپیداوار کے اجلاس میں جو بیان انہوں نے دیاتھا، وہ ہی ان کو ہٹائے جانے کی وجہ بنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قواعد وضوابط کے تحت جھوٹ بولنا جرم ہے لیکن سچ مشیر کو پسند نہیں۔پاکستان سٹیل ملز سٹیک ہولڈرز نے وزیراعظم عمران خان سے کہا ہے کہ فوری طورپرپیشہ وارانہ لیاقت ومہارت رکھنی والی ٹیم سٹیل مل میں مقرر کی جائے تاکہ مل کی بحالی ہو جو تین سال سے بند ہے اور پچاس لاکھ روپے فی گھنٹے کے نقصان سے بچا جائے۔ مل کے ملازمین، پینشنرز، سپلائرز، ڈیلرز اور کنٹریکٹرز نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے جس میں سابق (ن) لیگ حکومت پر جون 2015ء میں مل بند کرنے کے فیصلے کو مجرمانہ غفلت قراردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مل کے ذمے واجب الادا رقم 465 ارب ہوگئی ہے۔ ہر سال 2.5 ارب ڈالر غیرملکی زرمبادلہ کا نقصان الگ ہے۔ اگر مل چل رہی ہوتی تو ہر سال سٹیل کی مصنوعات بیرون ملک سے نہ منگوانی پڑتیں۔
سٹیک ہولڈر گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ ادارے کو بحال کرسکتے ہیں، موجودہ پلانٹ بحال کرسکتے ہیں، اس کی استعداد تین گنا بڑھا کر تین ملین ٹن کرسکتے ہیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جائے۔ ان کا اصرار ہے کہ گروپ نے قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی۔ خط کے مطابق سٹیل مل لوٹ مار کی کھلی چھوٹ، نااہلی، ضرورت سے زائد ملازمین کی بھرتی اور حکومت کی جانب سے اس کی بحالی میں تساہل پسندی کی بناء پراس حالت کو پہنچی ہے۔ اگست 2013ء میں مل کی بحالی کے لئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 28 ارب روپے کے پیکج کی منظوری دی تھی لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسے مسترد کردیاتھا۔ اسحاق ڈار نے قابل عمل تجاویز لانے کا کہاتھا جو کبھی نہیں آئیں اور پانچ سال میں قومی خزانے کو 265 ارب کا نقصان ہوا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے چئیرمین کو برطرف کرنے، چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ازخود نوٹس لے کر نج کاری کو روکنے سے ملک کو کیا فوائد ملے جب مل کے نقصانات 28 ارب تھے اور نیب کی تحقیقات کے نتائج کیا نکلے۔ سپریم کورٹ نے تین مہینے میں تحقیقات کا کہاتھا لیکن تین سال گزر چکے ہیں کچھ نہیں ہوا۔ سٹیل مل پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھی اگر عمران خان اس کی مانگ میں سیندور نہ بھر سکے تو کیا ہو گا ؟؟
Load/Hide Comments