جنرل حمید گل کی پیش گوئیاں

یہ ایک فکری تکون تھی یہ تین بڑے شاہ دماغ تھے۔ اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں قائد کا کردار ادا کرنے والے رہنما، جن کی باتیں پیش گوئیاں مدتوں بعد آج سچ ثابت ہورہی ہیں ۔ کشمیر جن کی زندگیوں کا محور رہا جو سرکار مدینہ اور مدینے کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے ۔ جنت آشیانی مجید نظامی’ انکل نسیم انور بیگ اور جنرل حمید گل تین بزرگ تھے لیکن سوچ یکساں تھی، علاقائی مسائل پر ایک جیسی سوچ رکھتے تھے۔ یہ انکل نسیم انور بیگ تھے جنہوں نے ڈیورنڈ لائن کے پار نیٹو افواج کو شکست کھاتے اور پسپا ہوتے چشم تصور سے دیکھا تھا ۔ جناب مجید نظامی آزادی کشمیر کے لئے جنگ کو ناگزیر حقیقت قرار دیتے تھے اور جنرل حمید گل نے افغانستان میں امریکی رسوائی اور پسپائی کا تعلق کشمیر کی آزادی سے کیسے جڑا ہوا ہے ۔ جانے کے بعد ان کی یاد کشمیر کے بحران میں بار بار آرہی ہے۔ جنرل حمید گل نابغہ روزگار شخصیت اور عظیم جنگی مفکر تھے۔ اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا، والی بات بڑی ہی صادق آتی ہے۔ چار سال قبل ہم سے بچھڑ جانے والے جنرل گْل کی کہی ہوئی باتیں آج سچ ثابت ہورہی ہیں۔
آنکھوں میں خودداری کا فخر اور اسلامی حمیت کی چمک رکھنے والا حمید گل20 نومبر1936ء کوایک عام کسان محمد خان کے گھر سرگودھا میں پیدا ہوا۔ گائوں میں تعلیم حاصل کرنے والا یہ بچہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھوڑا ہی عرصہ رہا پھر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول چلاگیا۔ حمید گل کا تعلق پنجابی پشتون خاندان سے تھا۔ سوات میں آباد یوسف زئی قبیلے کا یہ خاندان پنجاب کے علاقے سرگودھا میں آکر آباد ہوگیا تھا۔ آرمرڈ کور سے تعلق رکھنے والے حمید گل نے براہ راست جنرل ضیاء کی کمان میں بٹالین کمانڈر، سٹاف کرنل کے طورپر بھی کام کیا۔ یہی نوجوان پھر پاکستان کے ممتاز ترین ادارے، قوم کے فخر اور اس کی آنکھ، کان کا فرض ادا کرنے والی آئی ایس آئی کا سربراہ بن کر دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد نام اور مقام پاگیا۔
15 اگست 2015ء کو دارفانی سے کوچ کرجانے والے جنرل سے میزبان نے سوال پوچھا۔ ’’جنرل صاحب وہ کون سا سَن ہوگا جب آپ کی بصیرت کی روشنی میں مسئلہ کشمیرحل ہوگا؟‘‘ جنرل حمید گل نے کسی توقف کے بغیر جواب دیا’’جب افغانستان سے پسپا ہوتے ہوئے امریکہ کی پشت دیکھیں گے۔‘‘ پھر بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’بھارت کو پتہ ہوگا کہ اب وہ پاکستان پر حملہ نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود کہ اس کے جرنیلوں نے کولڈسٹارٹ اورمحدود جنگ کا نظریہ دیا۔ یہ بکواس (nonsense) ہے۔ ایک پروفیشنل کے طورپر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ نہیں چل سکتا۔‘‘
جنرل حمید گل نے بھارت کے عزائم سے خبردار کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’آپ کو وہ (بھارت) دہشت گردی کے زمرے میں لانا چاہتا ہے۔ یہ الزام عائد کرے گا کہ یہاں (پاکستان) سے ریاستی دہشت گردی ہورہی ہے۔ میری بات لکھ لیجئے فروری کے وسط میں سری نگر میں بھارت خود حملہ کرائے گا، را حملہ کرائے گی اور اس کا الزام پاکستان پر لگایاجائے گا۔‘‘ واضح رہے کہ پلوامہ حملہ 14 فروری 2019ء کو ہوا تھا۔ پاکستان کی تذویراتی پالیسیوں کا ’’گارڈفادر‘‘ کہلانے والے جنرل حمید گل نے یہ بھی کہاتھا کہ ’’میرے خیال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے بڑا میدان کراچی میں سجے گا۔ فوج کو اس طرف کا رْخ کرنا پڑے گا۔ مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں۔‘‘
پلوامہ ڈرامے کے بعد جو صورتحال ہوئی اور اس میں کراچی کے حوالے سے سب نے دیکھا کہ کیا منظر تھا۔ اگر بھارت کراچی پر میزائل داغتا تو پاکستانی میزائل دہلی اور ممبئی کو نشانہ بنانے والے تھے۔ بھارت نے سٹیلائٹ سے پاکستانی میزائلوں کو دیکھ لیاتھا اسی لئے یہ منصوبہ ناکام ہوا۔ مودی کے حوالے سے جنرل حمید گل نے کہاتھا کہ ’’ میں آپ سے حقیقتا کہتا ہوں کہ مودی بھارت کو تباہ کرکے جائے گا۔ وہ ہمارے لئے بڑا تحفہ ہے۔ دو قومی نظریہ جسے امن کی آشاؤں والے شردھالوؤں نے ڈبونے کی پوری کوشش کی، اس کو زندہ کرنے والا مودی ہے۔‘‘ ساتھ ہی طنزا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہاتھا کہ ’’شکریہ مسٹر مودی۔ شکریہ۔‘‘
وقت نے ثابت کیا کہ حمید گل کی کراچی پر حملے کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ بھارت نے کراچی پہ چارمیزائل داغنے کا منصوبہ بنایا تھا جب وزیراعظم عمران خان نے منہ توڑ جواب دینے کے لئے بری فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے دوگنے میزائل داغنے کا حکم جاری کردیا۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہدایت کی کہ وہ بڑے ممالک کو صورتحال پر خبردار کردیں کہ بعد میں ہم سے گلہ نہ کرنا۔ ایک اور انٹرویو میں جنرل حمید گل نے پاکستان کی جوہری صلاحیت سے لے کر مدینہ پاک کے دفاع اور غزوہ ہند تک کا منظرنامہ پیش کیاتھا۔ وہ اپنے دبنگ انداز میں پاکستان کے دشمنوں کو للکارتے ہیں کہ’’ بیٹا پاکستان کے ایٹم بم کوچھوٹا نہ سمجھو، مشرق اورمغرب میں اگر مسلمانوں کی تھوڑی بہت عزت پاکستان کے پاس ایٹم بم بچی ہوئی ہے جتنا آپ نے اس ایٹم بم پہ خرچ کیا ہے یہ دونوں جہانوں میں بہترین سرمایہ کاری ہے۔‘‘
وہ کہہ گئے کہ ’’اگراسرائیل کو روکا ہوا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہڑپ کرکے مدینہ تک نہیں آجاتا توآپ کے ایٹم بم کے خوف سے۔ اگر بھارت کوکوئی روکے ہوئے ہے کہ۔۔ ایشیا سے لے کر کابل پر قبضہ نہیں کرلیتا تو آپ کے ایٹم بم کے خوف سے۔‘‘قیام پاکستان کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’۔۔۔ اورپاکستان کو اللہ نے بنایا کیوں تھا؟ اللہ کے رازوں کو سمجھو۔سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی کہ ’’ جو پاکستان کے دفاع میں ایک اینٹ بھی رکھتا ہے وہ غزوہ میں شامل ہے۔غزوہ اب سرحدوں پر نہیں لڑاجائے گا کہ فوجیں آگے جاکر ٹینکوں سے لڑرہی ہوں گی۔۔ پوری قوم لڑے گی جنگیں۔۔ شہروں میں ہوں گی۔۔۔ پاک فوج کے پاس آج ہمارے ایٹمی ہتھیارہیں۔ یہی فوج ہے جس سے پوری دنیا کا کفرسب سے زیادہ خوف کھاتا ہے۔ان کا یہ کہنا بھی کس قدر درست ثابت ہوا ہے کہ ’’صرف مسلمان ترکی اب ایسا ملک رہ گیا ہے جس کے پاس طاقتور فوج ہے۔ باقی پوری مسلمان دنیا کی فوجیں معطل ہوچکی ہیں۔۔ ترکی ہے یا پاکستان ہے۔۔۔ آنے والے وقتوں میں آپ دیکھیں گے کہ ترکی اور پاکستان مل جائیں گے۔‘‘آج ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts