سانحہ ٔ مشرقی پاکستان اور فوجی دستاویزات


جنرل صاحبزادہ یعقوب مستعفی ہونے کے بعد بھی مشرقی پاکستان کے بحران کا سیاسی حل نکالنے کے لئے مختلف تجاویز پر مشتمل پیکیج پیش کرتے رہے اور جنرل یحییٰ کے دورۂ ڈھاکہ پر زور دیتے رہے‘ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔پاک فوج کی مشرقی پاکستان کمان کے کمانڈرصاحبزادہ یعقوب خان پانچ مارچ 1971ء کو مستعفی ہوگئے تھے۔ پانچ صفحات پرمشتمل استعفیٰ تلخ حالات کا خونیں باب ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’نپولین کا جنگ کے بارے میں قول اس صورتحال کا جامع اظہار ہے جس کا مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 کے اوائل سے مجھے سامنا رہا۔ نپولین نے کہا تھا ’’جرنیل محاذ جنگ کا مکمل ذمہ دار ہوتا ہے۔ان غلطیوں سے بری الذمہ نہیں ہوتا جو دوران جنگ خود اس سے یا اس کے کسی مشیر سے ہوتی ہیں۔ اگر وہ کسی جنگی منصوبے کو مناسب نہیں سمجھتا‘ لیکن اس پرعمل کرتا ہے تو اس جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں کمانڈر کو منصوبہ تبدیل کرانے کے لئے دلیل کے ساتھ اصرار کرنا چاہئے اس کی وجوہات بیان کرنی چاہئیں، بصورت دیگر فوج کو تباہی سے دوچار کرنے کا ذریعہ بننے کے بجائے مستعفی ہو جانا چاہئے اور جنرل صاحبزادہ یعقوب نے باوقار طریقے سے مستعفی ہونے کا راستہ چنا۔ انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان جنرل یحیٰی خان کے نام پانچ مارچ1971ء کو تحریر کردہ استعفیٰ میں لکھا تھا ’’موجودہ بحران کا واحد حل سیاسی ہے میں نے بارہا تجویز کیا ہے کہ صرف صدر مملکت ہی چھ مارچ1971ء تک ڈھاکہ پہنچ کر دور رس اثرات کے حامل فیصلے لے سکتے ہیں۔ میں پوری طرح قائل ہوں کہ اس مسئلہ کا فوجی حل نہیں نکالاجا سکتا اس لئے میں فوجی کارروائی پر عمل درآمد کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں ہوں جس کا واضح نتیجہ خانہ جنگی اور نہتے شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوں گی۔ اس اقدام کے ذریعے کوئی دانشمندانہ مقصد حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کے تباہ کن اثرات نکلیں گے۔ اس لئے میں اپنے استعفیٰ کی تصدیق کرتا ہوں۔
جنرل صاحبزادہ یعقوب واضح کرتے ہیں کہ ’’راولپنڈی میں ہونے والی اہم ملاقات میں صدر یحییٰ نے یکم مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد میں شرکت سے متعلق پیدا شدہ بحران پر بات چیت کی۔ انتہائی سخت مارشل لاء کے نفاذ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواکا ذکر کیا۔ اس آپریشن کی میں نے شدید مخالفت کی تھی۔ 23 فروری کوصدر کے چیف آف سٹاف میجر جنرل پیرزادہ کو اپنے خط میں ان خیالات کی تحریری توثیق کی جنہیں اسی روز صدر کے علم میں لایاگیا۔ اسلام آباد بھجوائے گئے میرے دیگر ٹیلی گراموں کے اقتباسات میں عام فوجی کارروائی سے باز رہنے اور سیاسی حل پر زور دیاگیا اور اس مقصد کے لئے صدر سے جلد از جلد دورہ ڈھاکہ کی درخواست کی۔ انہوں نے ڈھاکہ آنے پر اتفاق کیا‘ لیکن چار مارچ کو اچانک اپنا دورہ منسوخ کردیا۔ تین اور چار مارچ کے ٹیلی گرام کے اقتباسات ان حقائق کی وضاحت کرتے ہیں۔ بروقت مشوروں، مارشل لاء کے نفاذ کے نتائج اور سیاسی حل کے لئے صدر کے دورہ ڈھاکہ سے انکار کے بعد میرے پاس استعفیٰ کے سوا چارہ نہیں۔ کیونکہ شرح صدر کے ساتھ تحریری خیالات پیش کرچکا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس مشن کو قبول کرکے میں اس عمل کا راضی برضا حصہ بن جاؤں گا جس سے پاکستان اور فوج تباہ ہوجائے گی جس کی قیادت کا اعزاز مجھے حاصل رہا۔‘‘
جنرل پیرزادہ، چیف آف دی سٹاف کے نام تحریری خط میں لکھا،صدر یحییٰ خان سے گزشتہ روز (22 فروری1971) کو ہونے والی ملاقات میں موجودہ تعطل سے پیدا ہونے والی عمومی صورتحال کے نتائج پر بات ہوئی جس میں میرے علاوہ گورنر (ایڈمرل ایس ایم) احسن ، سی او ایس( آرمی) اور آپ بھی موجود تھے۔ میں نے مناسب خیال کیا کہ میں اپنے بیان کردہ نکات کا خلاصہ آپ کو پیش کردوں جو ان نازک ترین حالات میں فیصلہ سازی میں معاون کے طور پر مفید ثابت ہوگا جن کا نتیجہ ملک کے مستقبل کے لئے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔
مشرقی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے بعد سے صورتحال تبدیل ہوکر شمشیر بے نیام مارشل لا کی کارروائی تک پہنچ چکی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم کسی سیاسی جماعت یا چھوٹے سے چھوٹے گروہ کی حمایت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ محض سنگینوں سے حکمرانی ممکن نہیں۔ بنگالی سول انتظامیہ/ ایجنسیز بشمول پولیس اور سول انٹیلی جنس پر بھی انحصار ممکن نہیں ہوگا جس کے تعاون کے بغیر ہم محض اندھیرے میں تیر چلا رہے ہوں گے۔ یہ بات دیگر محکموں پر بھی صادق آتی ہے جس میں تمام ضروری خدمات کی فراہمی کے ادارے شامل ہیں۔ بنگالی قوم پرستی کی لہر اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ایسٹ پاکستان رائفلز (ای پی آر) میں بے چینی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
ایسٹ بنگال رجمنٹ (ای بی آر) یونٹس (4/5 بی این ایس) اور مشرقی پاکستان کے عمومی ملازمین کے نظم وضبط اور وفاداری کو ایسی صورتحال میں سخت ترین امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ ایک معمولی سانحہ کا نتیجہ کسی بڑے بحران کی صورت نکل سکتا ہے۔اگرچہ فساد کا مرکز بڑے شہر ہوں گے۔ عوامی لیگ (اے ایل) کے کارکن دیہی علاقوں میں بھی چلے گئے ہیں اور مفصل (دیہی) علاقوں میں بھی گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔ نکسل اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کی موجودہ صورتحال میں فوج کی تعیناتی (ڈیپلائمنٹ) میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔امکان غالب ہے کہ بھارت فسادیوں کی کھل کر مدد کرے گا۔ اہداف کے حصول کے لئے دستوں کی کمی کی بناء پر غیرمعمولی سخت اقدامات کرنا ہوں گے جن کا لازمی نتیجہ خونریزی کی صورت نکلے گا۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، انٹیلی جنس اور عمومی انتطام (جنرل ایڈمنسٹریشن) کے لئے ہمیں کلی طور پر بنگالیوں پر انحصار کرنا پڑے گا جن کا موجودہ صورتحال میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہوگا اور پھر یہ چند افراد غدار قرار پائیں گے۔ تمام پہلوؤں کی روشنی میں وحشت ناک اقدامات سے صورتحال اتنی ابتری کو نہ پہنچتی تو امن وامان قابو میں رکھنے کے لئے مغربی پاکستان سے کمک درکار نہ ہوتی۔ اصل نکتہ ہماری استعداد کار نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارااگلا قدم کیا ہونا چاہئے؟ درحقیقت ہم مشرقی پاکستان میں قابض فوج بن کر رہ جائیں گے۔ خواہ اس کے لئے سات کروڑ عوام کو محصور رکھنا پڑے؟ یہ کربھی لیں تو بھی ہم ناکام ہوں گے۔ تلوار کے ذریعے اتحاد قائم رکھنے کی کوشش خود کو تباہ کرنے کا نسخہ ہے۔ (جاری ہے )

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts