میرا دکھ: میں بھی کسان ہوں

پاکستان زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا تمام تر انحصار زراعت اورزرعی کاروبار پر ہے یہ صرف اب کہنے سننے کی باتیں رہ گئی ہیں چاول گندم اور کپاس اگانے والا کسان بھوکا مر رہاہے جبکہ ان اجناس کا کاروبار کرنے والا تاجر لاکھوں کروڑوں میں کھیل رہا ہے کپاس سے دھاگہ اور کپڑا بنانے والے کارخانے دار مافیا کی طرح تمام ریاستی اداروں کے اعصاب پر سوار ہیں اور بچارہ کسان زندہ درگور ہو رہا ہے۔ کہنے کو پاکستان زرعی ملک ہے اور زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کبھی آپ نے وزارت زراعت کے کسی ذیلی ادارے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کا نام سنا ہے جس سے نرسر یوں اور پودوں کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے لیکن یہ سب خام خیالی ہے کیونکہ زراعت کے لئے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جن ترقی یافتہ ملکوں نے اس کو جدید خطوط پر استوار کر لیا، وہ زرعی پیداوار میں صف اول میں ہیں یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان اس کی روشن مثالیں ہیں۔ امریکی زرعی ریاست کیلیفورنیا دنیا کی 10بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں کسان محنتی اور جفاکش ہیں مگر ان کا خون پسینہ اور ساری محنت نااہل افسران کی بدنیتی کی وجہ سے خاک میں مل جاتی ہے۔وزارت زراعت کا ذیلی ادارہ پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ زرعی اجناس اور اس سے متعلقہ تمام ادویات‘ کھاداور بیجوں کی درآمد اور برآمد Exports Imports & کے تمام نازک مراحل کی نگرانی کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ یہ حساس اور اہم ادارہ 1998سے عملاً کسی باقاعدہ مستقل ڈائریکٹر جنرل سے محروم ہے۔ اس ادارے پر گذشتہ دو دہائیوں سے ارب پتی مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس ادارے کے کلیدی شعبہ جات میں نچلے درجے کا ایک افسر تمام ادارے کا بلا شرکت غیرے مالک ہے اور غیر اعلانیہ ڈائریکٹرجنرل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جو متعلقہ شعبوں کے حوالے سے تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن انہیں اسلام آباد کی افسر شاہی کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ مثال کے طور پر (Reference Pesticide Laboratory) میں پورے پاکستان سے محکمہ زراعت کے نمونہ جات کے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی6لاکھ روپے فیس مقرر ہے۔ ایسی کئی سو مثالیں موجود ہیں جس میں محکمہ زراعت پنجاب کے نمونہ جات کو غیر معیاری قرار دے دیا گیا غریب کسان ا پنی جمع پونجی کا بیشتر حصہ خرچ کر کے کوالٹی ادویات کی تلاش میں مارا ماراپھرتا ہے۔ تمام اجناس کی درآمد سے پہلے برآمدکنندگان ممالک اجناس کی فیومیگیشن قانونی شرط ہے اور یہ ذمہ داری برآمدکنندگان ممالک کی ہے جو کہ Fumigation کروا کے قانونی سرٹیفکیٹ اپنی برآمدات کے ہمراہ بھیجتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے اسلام آباد میں اعلے حکام کی ملی بھگت سے نیا قانون نافذ کیا ہوا ہے جس کے تحت تمام Consignments جو پاکستان برآمد کی جاتی ہیں ازسر نو Fumigate کی جائیں گی تاکہ اپنی فرنٹ کمپنیوں کو نوازا جاسکے پیمرا میں دوران سماعت یہ انکشاف کیا گیا کہ دونوں مشکوک کمپنیوں کا کاروباری پتہ ایک ہی ہے ۔ زرعی شعبہ سے متعلق کوئی بھی چیز خواہ بیج ہو، زرعی ادویات ، کھادیں اور نامیاتی اجزا کی درامد ہو یا کوئی پھل ، سبزی، چاول یا کسی اور جنس کی برآمد ہوں، تاکہ تمام درآمدات اور برآمدات کو مقامی اور عالمی قوانین سے ہمْ آہنگ کیا جاسکے۔ ہمارے ہاں لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ مدتوں پہلے نیک نام سائنس دان ڈاکٹر کوثرعبداللہ ملک نے بتایا تھا کہ ہمارے پاس درآمدی گندم کا معیار جانچنے کی کوئی لیبارٹری نہیں تھی ہمارے ‘سیانے بیوروکریٹ’ گندم میں ہاتھ ڈال کر اس کے معیاری ہونے کے تصدیقی اسناد جاری کردیتے تھے جبکہ ہمارے ‘دوست’ ممالک جانوروں کی خوراک ہمیں کھلائے جارہے تھے یہ ڈاکٹر کوثرعبداللہ ملک ہمارے پیارے معروف اشتراکی دانشور اور روزنامہ نوائے وقت کے بزرگ کالم نگار جناب عبداللہ ملک مرحوم کے لائق فائق صاحبزادے ہیں۔
چند بے نام سرکاری اہلکار پاکستان کی زراعت کو داؤ پر لگا چکے ہیں کروڑوں اربوں کا کھیل کھیل رہے ہیں تکنیکی ڈکیتی جاری ہے اور سب گم سم ہیں کہ زراعت اور زرعی شعبہ کبھی ہماری اولین ترجیح نہیں رہا۔ پاکستان میں تو لہریں گننے کا بے ضرر کام کرنیوالا بھی ’’مال پانی‘‘ کی جگاڑ لگا لیتا ہے جہاں سارے ملک کی اشیائے خوردنی کی کروڑوں اور اربوں ڈالر کی درآمدات اور برآمدات کا کاروبارہوتا ہو وہاں لوٹ مار کا دروازہ کھولنا کیا مشکل تھا ۔ہر درآمد اور برآمد کے لئے No objection certificate (NOC) کو لازم قرار دے دیا گیا پھر کیا تھا پل بھر این او سی جاری کروانے والا ایجنٹ مافیا اْمڈ آیا ہے جو سارا دن راہداریوں میں پھرتا اور بولی لگاتا رہتا ہے۔ یہاں بھی جو تعاون کرتا ہے اس کا مال جلد نکل جاتا ہے ورنہ اس کا مال اتنا لیٹ کر دیا جاتاہے کہ کمپنی کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جو کمپنی تعاون نہیں کرتی اس کا نمونہ لے کر لیبارٹری بھیج دیا جاتا ہے اور نمونہ کے غلط ہونے کی اطلاع زبانی دے دی جاتی ہے اور یہ حربہ کارگر ثابت ہوتا ہے اور تعاون پر مجبور کیا جاتاہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام مال ( Accreditted (Internationally لیبارٹریوں سے منظور ہو کر آتا ہے جہاں کی لاکھوں ڈالر فیسیں ادا کی جاتی ہیں یہ سارے غیر قانونی اخراجات بالآخر بے چارے کسان کی جیب سے ادا ہوتے ہیں۔ یہ محکمہ مافیا کے نرغے میں بے یارو مددگار سبزی منڈی بنا ہوا ہے یہاں مافیا قابض کی اپنی ہی کمپنیاں ہیں جو Quarantineکی سہولتیں مہیا کرتی ہیں درآمد اور برآمد کنندگان (Fumigation) اور (Quarantine) کے نام پر روزانہ کروڑوں روپے کا جگا ٹیکس دینے پر مجبور ہیں اگر وہ مزاحمت کریں تو ان کا مال کنٹینرز میں پڑا پڑا خراب اور ناقابل استعمال ہوجائے گا اس لئے مافیا کو خوش رکھنا ان کی مجبوری ہے۔پاکستان میں درآمد کی جانے والی زرعی ادویات کی رجسٹریشن کے مراحل کو جو بہت سادہ اور سائنسی بنیادوں استوار ہیں، انہیں جان بوجھ کر اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ جب بھی جہاں بھی کسی کمپنی کو بلیک میل کرنا ہو تو کر لیا جاتا ہے۔
اسی طرح جو کمپنی تعاون نہیں کرتی اس کی رجسٹریشن روک لی جاتی ہے اور وہ کوئی مال درآمد نہیں کر سکتی۔ چند برس ہوتے ہیں کہ سادہ بیان حلفی Undertaking پر سینکڑوں ہزاروں غیر معیاری اور ناقص ادویات کو رجسٹرڈ کیا گیا۔ قوانین کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ کہا گیا کہ باقی تمام requirements بعد میں پوری کر لی جائیں گی جو کہ کبھی بھی پوری نہیں ہوتیں۔
یہ ناقص ادویات مارکیٹ میں دھڑا دھڑ بکتی رہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر معروف برانڈز کے جعلی کاغذات تیار کئے جاتے ہیں ایک یورپین کمپنی کے تمام لیٹر پیڈز ، مہریں اور دیگر کاغذات جعلی تیار کیے اور اس کمپنی کے جعلی نمائندے مقرر کردئیے گئے اس کمپنی نے اطلاع ملنے پر دفتر خارجہ کے ذریعے شدید احتجاج کیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر وہ سب کچھ دبا دیا گیا۔ اس طرح ایک بھارتی کمپنی جو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی اس کے جعلی لیٹرپیڈز تیار کئے گئے اور مختلف مکسچر پراڈکٹ تیار کر کے ان کے ساتھ جعلی ڈیٹا لگا کر ان کی رجسٹریشنز مختلف کمپنیوں کو تقسیم کی گئیں۔
بیرونی ممالک سے جو مکسچر ادویا ت برس ہا برس کی ریسرچ، آزمائشوں اور کروڑوں ڈالرز کے اخراجات کے بعد بازار میں آتے ہیں، جعلی لیٹر پیڈ تیار کر کے اپنے دفتر میں مکسچر تیار کرنے کی رجسٹریشن لاکھوں روپے میں فروخت کر تے رہے ہیں۔ اس مافیا کیخلاف اگر کوئی محب وطن ایماندار افسر آواز اٹھاتا ہے یا تو اس کا تبادلہ کرا دیا جاتاہے یا اس کو کھڈ ے لائن لگا دیا جاتا ہے اور ایسے افسر کیخلاف جھوٹی انکوائریاں شروع کروا دی جاتی ہیں۔ ملتان کے چھوٹے کارخانے دار احوال سناتے رو پڑے کہ ملک میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں اور ہم نے اپنی جمع پونجی’ زمین بیچ کر یہ کاروبار شروع کیا ہے اور کئی ہزار زرعی گریجوایٹس کو نوکریاں دی ہیں، ہمارے لوگ سارا دن شدید گرمی میں کسانوں کی رہنمائی کیلئے پھرتے ہیں جب کہ پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
ملتان سے کراچی آنے جانے کے اخراجات اور کراچی میں مسئلہ کے حل تک ہوٹلوں میں رہنا ہر کسی کا کام نہیں ہے ہمیں تو جیسے چور بنادیا گیا ہے ، ملاوٹ اور جعلی ادویات تیار کرنے والے موجیں کر رہے ہیں جس کی قیمت ہمارا وطن اور غریب کسان ادا کرتا ہے۔ اس ادارے کو ایک ایماندار اور وڑنری لیڈر دیں تاکہ زراعت کوجو کہ ہمارے جی ڈی پی کا 25فیصد ہے ،جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور سالوں سے کرپٹ مافیا سے نجات دلائی جائے۔
کوئی بھی کاروبار ہویا کمپنی ،سرکاری اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتی ہے مگر اپنے غیر قانونی اقدامات اور لوٹ مار سے کروڑوں اربوں کی درآمدات اور برآمدات کرنے والے اس قدر تنگ ہیں کہ مجبوراً عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس وقت پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے خلاف 225مقدمات زیر سماعت ہیں۔
ہے کوئی جو پاکستان کے لاکھوں کروڑوں کسانوں کو زرعی شعبے سے وابستہ لاکھوں ماہرین زراعت کو اس ظلم سے نجات دلائے۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال’ جناب چیف جسٹس ثاقب نثار‘ اور کوئی جو اس بے نوا کسانوں کی آواز سنے کوئی عمران خان جو کسانوں کو زرعی سائنس دانوں کو اس ہتیا چار سے نجات دلائے۔ رہیں دستاویزات تو ان کا ایک پلندہ تو اس کالم نگار کے پاس بھی موجود ہے میرا ذاتی دکھ یہ ہے کہ میں بھی ایک کسان ہوں ۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts