بعض لوگ عجب مقدر لے کر پیدا ہوتے ہیں اجمل قصاب بھی ان میں سے ایک تھا جن کو مرنے کے بعد قبر میں بھی سکون میسر نہیں وہ بچارا مدتوں پہلے بھارت میں پھانسی پانے کے بعد سپرد خاک ہو چکا لیکن دہشت گردی کے تناظر میں اس کی داستان بار بار منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ چند دن پہلے میجر جنرل محمود علی درانی نے نئی دہلی میں ممبئی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کو یاد کیا اور بھارتی سرکار کے یک طرفہ الزامات کی تصدیق کی کہ ممبئی حملے آور پاکستان سے گئے تھے شکر یہ ہے کہ انہوں نے ازراہ کرم فوج اور آئی ایس آئی کو بے گناہ قرار دینے کی کرم فرمائی کہ جرنیلوں کی محفوظ کالونیوں میں رہنا بھی تو ہے۔ اجمل قصاب کے حوالے سے مہاراشٹر پولیس کے ریٹائرڈ سربراہ ایس ایم مشرف ایک بالکل اور انوکھی کہانی بیان کرتے ہیں جس پر پاکستان میں کسی نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ممبئی پولیس کے ایک مایا ناز پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی موت کے گرد گھومتی یہ داستان ایسی چونکا دینے والی ہے ’’کرکرے کے قاتل‘‘ نامی اس کتاب کے اردو اور پنجابی سمیت مختلف ربانوں میں ترجمے ہو چکے تھیں۔ اس کتاب میں بتایا گیا کہ اجمل قصاب کو 2006میں کھٹمنڈو سے بھارتی ’’را‘‘ نے اغواء کرایا تھا جس کو دو سال قید میں رکھنے کے بعد ممبئی حملوں میں زندہ ثبوت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ کھٹمنڈو سے 200 افراد کو مختلف علاقوں سے اغوا کیا گیا تھا جس کے اغوا پر نیپال کی سپریم کورٹ میں حبس بے جا اور اغوا کی درخواستیں دائر کی گئیں تھیں جس میں نیپال وزارت داخلہ اور بھارتی ہائی کمشن کو فریق بنایا گیا تھا۔
سی ایم فاروق نامی وکیل نے اس حوالے سے بھارت اور پاکستانی حکام کو خطوط بھی لکھے اور پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ یہ تمام مغوی قانونی طریقے سے ویزے لے کر کھٹمنڈو گئے تھے کھٹمنڈو بھارتی خفیہ اداروں اور ’’را‘‘ کی چراہ گاہ بنا ہوا ہے جس کا اندازہ وہاں جائے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے سیاہ رو چڑی باز ’’را‘‘ کے وکیل صفائی بنے ہوئے ہیں۔ کھٹمنڈوکا ذکر آئے اور اپنی جوانی کی دیوانگی یاد نہ آئے بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ جب راتیں جاگتیں تھیں دن سوتے تھے دور بادشاہت میں ہمالیہ کے قدموں پر کھٹمنڈو اک خوابیدہ سا شہر تھا جس میں بجلی سے چلنے والی سرخ بسیں چلتیں تھیں جس کا دریا بدبودار گندہ نالہ نہیں بنا تھا۔ ہمارے مربی و محترم ڈاکٹر فاروق شیخ وہاں ہوتے تھے (ICIMOD) The International Centre for Integrated Mountain Development کے کرتا دھرتا، پاکستان کے فخر فرزند، چوٹی کے ماہر حشرات الارض’ جنہوں نے شہد مکھیوں کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی شرح افزودگی کا پتاچلانے کی امریکی سی آئی اے کی سازش ناکام بنا دی تھی۔ آخری بار کھٹمنڈو گیا تو بادشاہت رخصت ہوئے کئی برس بیت چکے تھے۔ کھٹمنڈو میں چاروں غلاظت کے ڈھیرتھے۔ آوارہ کتوں کے ریوڑ شہر کے گلی کوچوں میں پھر رہے تھے۔ کھٹمنڈو کے باسی جمہوریت کی برکات سے لطف اندزو ہو رہے تھے۔ لیکن تیکھے مزاج اور ملیح چہرہ بنیتا ملا کب کی کینڈا سدھار چکی تھیں سنجیدہ مزاج اور محقق نیلو تھاپا ملک سے باہر تھیں لے دے کے صرف ثمن بسینت رہ گئے۔ وہ بھلا کب تک ساتھ دیتے البتہ میری بھتیجی پھاگنی تایا جی کو شرارتوں سے بہلاتی رہی۔ مودی نے تو اب بڑے نوٹوں پر پابندی لگائی ہے کھٹمنڈو میں مدتوں پہلے 5 سو روپے کا بھارتی نوٹ رکھنا قابل دست اندازی جرم تھا اور خود اس کالم نگار کو، اس جرم لطیف میں گرفتار ہوتے ہوتے بچا تھا کہ ثمن کو معاملہ رفع دفع کرانے کے بعد اس کی ادائیگی خود کرنا پڑی تھی۔ کھٹمنڈو سے ایسی ایسی رنگین اور سنگین یادیں وابستہ ہیں کہ جب کبھی ماضی کے اس شہر جمال کاذکر آتا ہے تو اب کوئی کیا کہاکئے اور ہم سناکئے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
کھٹمنڈو سے بے گناہ پاکستانیوں کو خاموشی سے اغوا کر کے بھارت پہنچا دینا بھارتی خفیہ اداروں کا معمول ہے جنہیں بعد ازاں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے تا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر عالمی برادری میں بدنام کیا جا سکے۔ اس وقت نیپال کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے اجمل قصاب کے اغوا اور بھارت سمگل کئے جانے کے واقعے سے لا علمی ظاہر کر کے واقعہ نمٹا دیا تھا۔ مہاراشٹرا پولیس کے ریٹائرڈ سربراہ ایس ایم مشرف نے برس ہا برس کی تحقیق و تفتیش کے بعد اپنی کتاب منظر عام پر لائے ہیں کہ ہیمنت کرکرے کے قتل کی تفتیش کے دوران بھی یہ شواہد سامنے آئے کہ اجمل قصاب کو بھارتی خفیہ اداروں کے انتہا پسند عناصر نے اغوا کے بعد تین سال تک اپنی تحویل میں رکھا تھا جس کے بعد موقع غنیمت جان کر اسے زندہ ثبوت دکھانے کے لئے ممبئی حملوں کے دیگر ملزموں کا ساتھی بنا کر پیش کر دیا گیا۔ اسی طرح ممبئی حملوں کے ملزموں کو شناخت کرنے والی واحد گواہ خواتین انیتا راجند اودیا نے بتایا تھا کہ اس کے سامنے 6 ملزمان ربڑ کی کشتی سے اترے تھے جس کی لاشوں کو بعد ازاں اس نے ہسپتال میں شناخت کر لیا تھا لیکن اس نے اجمل قصاب کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ انیتا نامی اس خاتون کو دہشت گردوں کے ممبئی کے ساحل پر اترنے کی واحد عینی شاہد ہونے کے باوجود بھارتی سرکار نے بطور گواہ عدالت میں پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس پر تفتیش کنندگان کو گمراہ کرنے کے جرم میں تعزیرات ہند کی دفعہ 182 کے تحت مقدمہ درج کر لیا تھا کیونکہ ان سے اجمل قصاب کو 6 دہشت گردوں کا ساتھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ممبئی حملوں میں کئی امریکی شہری بھی مارے گئے تھے اس لئے امریکی تفتیش کار بھی تحقیقات کیلئے وہاں پہنچ گئے تھے جو تین ہفتے انیتا سے تفتیش کرتے رہے جو ملزموں کی شناخت کے حوالے سے انیتا کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئے تھے انہوں نے انیتا کو تفتیش میں تعاون کرنے پر 10 ہزار امریکی ڈالر دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
11 جنوری 2008ء کو حملہ آوروں کی آمد کی واحد چشم دید گواہ انیتا غائب ہو گئی اور تقریباً ایک ہفتہ غائب رہی۔ 16 جنوری 2008ء کو دوبارہ منظر عام پرنمودار ہونے کے بعد انیتا نے دعویٰ کیا کہ امریکی خفیہ اداروں کے ارکان اسے عدالت میں بیانات دلوانے اور تحقیق و تفتیش کے لئے امریکہ لے گئے تھے جہاں اسے عدالت میں پیش کر کے بیان بھی لیا گیا جسے ممبئی پولیس نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ ایس ایم مشرف نے اجمل قصاب کی شائع ہونے والی تصاویر کا تکنیکی تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ تصاویر اصلی نہیں ہیں بلکہ وقوعہ سے پہلے یا بعد ہی لی گئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھتر پتی شیوا ٹرمینل پر لی جانے والی اجمل قصاب کی تصویر ممبئی مرر میں شائع ہوئی تھی جو فوٹوگرافر سبطین ڈی سوزا نے لی تھی۔ یہی تصویر مراٹھی اخبار روزنامہ پودھاری میں کسی اور فوٹوگرافر کے نام سے شائع ہوئی جبکہ اس پلیٹ فارم پر کھانے کے سٹال کے مالک ششی کار سنگھ نے واضح بتایا تھا کہ تمام حملہ آور نقاب پوش تھے اسی طرح ٹائمز آف انڈیا نے بھی بغیر وضاحت کہ یہ تصویر کس فوٹوگرافر نے بنائی تھی گولیاں برساتے ہوئے حملہ آور کی سامنے سے ایسی تصویر بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسے فوٹوگرافر کا خود کار رائفل کی گولیوں سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح اجمل قصاب کی ایک واضح تصویر مراٹھی زبان کے اخبار مہاراشٹر ٹائمز میں شائع ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک تصویر دو مختلف حریف اخبارات میں کیسے بیک وقت ایک ہی دن شائع ہو سکتی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ خفیہ ادارے منظم منصوبہ بندی کے تحت اپنی تخلیق کردہ تصاویر چھپوا رہے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح سی سی ٹی وی کیمرے بھی صرف اجمل قصاب ہی کی تصاویر بنا پائے جبکہ دیگر حملہ آوروں کی ان ایکشن وڈیو دستیاب نہ ہو سکیں۔ حرف آخر یہ کہ بے شمار احباب نے جم پارکر کی کتاب Taliban Shuffle کے بارے میں استفسارات کئے ہیں یہ کتاب پاکستان کے بڑے شہروں میں تمام بڑی کتابوں کی دکانوں پر دستیاب ہے۔ اس کا اردو ترجمہ دستیاب نہیں۔ ویسے بھی ترجمہ نثرکی اصل روح کو’ اس کے شان و شکوہ کو بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے ترجمے کا فن ویسے بھی اردو صحافت سے معدوم ہوتا جا رہا ہے اس وقت اردو ترجمہ کرنے والوں میں جناب مظہر اسلام، تنویر قیصر شاہد، جناب سلیم منصور خالد، قدرت اللہ چودھری نمایاں ہیں لیکن یہ احباب اپنی عدیم الفرصتی کے باعث کسی ایسے کام میں ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں، کہتے ہیں کہ اساتذہ میں جناب نذیر ناجی مجیب الرحمن شامی بھی با کمال ترجمہ کیا کرتے تھے اس کالم نگار کا تو یہ عالم ہے کہ اچھی نثر کا حسن اب بھی اسے جکڑ لیتا ہے گزشتہ ہفتے سابق ایرانی صدر احمد نژاد کے امریکی صدر ٹرمپ کے نام خط کی پر شکوہ نثر نے ایسے گرفت میں لیا کہ ساری رات اس نثری شاہکار کے پیچ و خم میں الجھا رہا اور ہوش و حواس کھو بیٹھا تا آنکہ اس کو اپنے قارئین کے حضور پیشوائی کے لئے تیار کرلیا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ الفاظ جکڑ بھی لیتے ہیں سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ اور پھر کہیں کا نہیں چھوڑتے۔
Load/Hide Comments