اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں بارے کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ کیس میں سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ،عدالت نے سوشل میڈیا کو دیکھ کر نہیں، آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے،21ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قراردیا گیا؟ ،کیا 4سال فوجی عدالتیں قائم رہنے سے دہشتگردی ختم ہو گئی؟۔
بدھ کو سپریم کورٹ میںجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی ۔سماعت کے آغاز پر اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ آج عزیر بھنڈاری نے دلائل دینے تھے ، میں نے ان سے بات کر لی ہے، میں دلائل دوں گا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ لوگ آپس میں طے کر لیں، ہمیں اعتراض نہیں کہ دلائل کون پہلے دے کون بعد میں، اعتزاز احسن نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ میرے بھی وکیل ہیں تاہم انہوں نے گزشتہ روز جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، میں نے سلمان اکرم راجہ کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی، جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اعتراض شائد صرف آرٹیکل 63اے والے فیصلے کے حوالے پر ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس منیب کے فیصلے کے صرف ایک پیراگراف سے اختلاف کیا تھا، کل دلائل ارزم جنید کی جانب سے دیئے تھے اور ان پر قائم ہوں، میڈیا میں تاثر دیا گیا جیسے پتا نہیں میں نے کیا بول دیا ہے؟، آپ کے سوال کو سرخیوں میں رکھا گیا کہ عالمی قوانین میں سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جو سوال پوچھا تو وہ سب کے سامنے ہے، سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں ہم بھی نہیں دیکھتے، سوشل میڈیا کو دیکھ کر نہ اثر لینا ہے نہ اس سے متاثر ہو کر فیصلے کرنے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میڈیا کو بھی رپورٹنگ میں احتیاط کرنی چاہئے ۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے خلاف بہت خبریں لگتی ہیں بہت دل کرتا ہے جواب دوں لیکن میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بغیر کسی معذرت کے اپنے دلائل پر قائم ہوں، جسٹس امین الدین خان نے کہا سوال تو ہم صرف مختلف زاویئے سمجھنے کیلئے کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم آپ کے دلائل سے متفق ہوں۔
اعتزاز احسن نے اپنی درخواست کا نمبر تبدیل ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا میری درخواست پہلے دائر ہوئی تھی،جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیںان کی بعد میں دائر ہوئی تاہم ان کی درخواست کو میرا کیس نمبر الاٹ کردیا گیا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایسا نہ کریں ایسی باتوں سے اور کہیں پہنچ جائیں گے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں، اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ انڈر ٹرائل ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کا تاریخ پھر جائزہ لیتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ لطیف کھوسہ آپ کا چشمہ آگیا ہے، قانونی نکات پر دلائل شروع کریں، پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی کو 9اور 10مئی کیساتھ مکس نہ کریں، پہلے ان سیکشن کی آزادانہ حیثیت کا جائزہ پیش کریں، سیکشن ٹو ڈی کا 9یا 10مئی پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔لطیف کھوسہ نے مو قف اپنایا کہ آئین میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، سیکشن ٹو ڈی برقرار نہیں رکھا جا سکتا، ملٹری کورٹس کی تشکیل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔لطیف کھوسہ نے استدلال کیا کہ قرآن پاک اور دین اسلام میں بھی عدلیہ کی آزادی کا ذکر موجود ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی خلفائے راشدین کے دور میں بھی تھی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ خلیفہ وقت کے خلاف یہودی کا فیصلہ آتا تھا وہ وقت بھی تھا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی کا قانون 1967میں لایا گیا، سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیااور بنگلہ دیش بن گیا، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھا گیا کہ وہاں ادارے کیخلاف نفرت پیدا ہوئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آئین میں قانون سازی کرنے پر کوئی ممانعت ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس کیلئے انہیں 21ویں ترمیم کرنا پڑی، سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ملٹری ٹرائل میں ججز اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا اس لئے 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کی گئی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ پھر دوسری طرف چلے گئے ہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا، ساری عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے، سیکشن ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، ملٹری ٹرائل خفیہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خواجہ حارث نے بتایا کہ شفاف ٹرائل کا پورا طریقہ کار ہے، پروسیجر اگر فالو نہیں ہوتا تو وہ الگ ایشو ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کھوسہ صاحب تاریخ میں جائیں تو آپ کی بڑی لمبی پروفائل ہے، آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے ٹو ڈی سیکشن ختم کرنے کیلئے کیا قدم اٹھایا؟ ،ہماری طرف سے بے شک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کردے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور بات یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں، فوجی عدالتیں بعد میں بنیں، سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کچھ اور تھیں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ کے سامنے ہے 26ویں ترمیم کیسے پاس ہوئی، آپ فیصلہ دیں ہم فیصلے پر عمل در آمد کروائیں گے، سویلینز کا ٹرائل ختم کرنے پر عوام آپ کے شیدائی ہو جائیں گے، 26ویں ترمیم کیلئے زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ 26ویں ترمیم پر کس رکن نے استعفیٰ دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ اختر منگل نے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سقوط ڈھاکہ کی وجہ صرف ملٹری ٹرائلز نہیں تھے، ملٹری ٹرائلز تو بہت آخر میں ہوئے ہوں گے، وجوہات اور بھی تھیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم مضبوط فوج چاہتے ہیں جس کے ساتھ عوام بھی کھڑی ہو، چاہتے ہیں فوج ٹرائلز کے معاملے سے باہر نکلے، آرٹیکل 175کیخلاف تمام قانون سازی کالعدم ہوتی رہی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قرار دیا گیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کو جنگی صورتحال اور دو سال کی مدت کی وجہ سے کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا 4سال فوجی عدالتیں قائم رہنے سے دہشتگردی ختم ہو گئی؟، لطیف کھوسہ نے کہا کہ آج اخبار میں خبریں دیکھ کر شرم آئی کہ لوگوں کو چن چن کر گولیاں ماری گئیں، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان کی تفریق سے نکلنا ہو گا، بدقسمتی سے اٹھارہویں ترمیم سے بھی صوبائیت کو ہوا ملی، فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے دہشتگردی کا جڑ سے خاتمہ کرے، عدالت فوج کو ٹرائلز سے نکال کر ان کا احترام کرائے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی سازش ہوئی پہلے فوج کو عوام سے دور کیا گیا، سب ادارے آئین کے دائرے میں رہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اتنی بڑی فوج ہے پھر بھی دہشتگردی کیوں ختم نہیں ہو رہی؟۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایم این اے ہیں یہ باتیں پارلیمنٹ میں کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ مسائل پارلیمنٹ کے حل کرنیوالے ہیں جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسمبلی میں بولنے لگتا ہوں تو مائیک بند کر دیا جاتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ 26ویں ترمیم منظور کرتے ہیں پھر ہمیں کہتے ہیں کالعدم قرار دیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسمبلی میں تو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھوا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا کام مخالفت کرنا تھا، اپنا کردار تو ادا کرتے، خیر اس بات کو چھوڑیں یہ سیاسی بات ہو جائے گی۔بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی۔