لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ جگہ اور ٹائم آپ کی پسند کا ہوگا لیکن خود آئیے گا، کسی پراکسی کے پیچھے مت چھپیے گا، اپنے حکم اور مشورے اپنی جیب میں رکھیں، پنجاب میں جب بھی بلدیاتی انتخابات ہونگے وہ کراچی جیسے بوگس نہیں ہونگے، آپ اپنی ڈیڈ لائن اپنی جیب میں رکھیں، آپ ایک صوبے کے اندر زبردستی گھس کر لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ آپ پنجاب کے معاملات میں گھس کر مداخلت کر رہے ہیں، اتنے معصوم مت بنیں، وفاق اور پنجاب کو دھمکیوں سے اور پیڈ احتجاج کروا کے بلیک میل کرنا آپ کا طرہ امتیاز ہے، آپ ہیں کون جو پنجاب کو حکم دیں گے۔
عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ میرا پانی میری مرضی بالکل ایسے ہی ہے جیسے مرسو مرسو پانی نہ دیسو، آپ دن رات پانی پر مرسو مرسو کریں، ہمیں کہیں پنجاب میں پانی آپ کی مرضی سے استعمال ہو تو ایسا ہوگا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے سیلاب متاثرین کے لیے طعنے بھیجے اور ان کی محرومیوں پر تماشا لگایا، یہ پنجاب ہے سندھ نہیں جہاں دنوں کا کام سالوں میں ہوتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی پنجاب سے نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھ لیجیے، پنجاب میں سالوں کا کام دنوں میں ہوتا ہے، آپ ابھی تک 2022 کا سیلاب بیچ رہے ہیں۔ پنجاب میں جہاں سروے ہوگئے وہاں چیکس ملنے شروع ہوگئے ہیں، جن کو ریلیف مل رہا ہے وہ مریم نواز کو دعائیں دے رہے اور شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ خود سازش کر رہے ہیں وفاق کے خلاف اور پنجاب کے خلاف بھی، جب آپ پنجاب کی ترقی سے جلنے لگتے ہیں تب آپ سازشیں شروع کردیتے ہیں، جب آپ سے آپ کی کارکردگی پوچھی جاتی ہے تو صوبائیت کارڈ کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔
عظمی بخاری نے کہا کہ جنوبی پنجاب کارڈ کھیلنا اور بینظیر انکم سپورٹ کارڈ کھیلنا اس کو سیاست نہیں غلاظت کہتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب آج بھی اندرون سندھ کے کسی بھی علاقے سے زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ ہے۔
آپ سے کراچی کا کچرا اٹھانے یا کرپشن کی بات کریں تو لسانیت کارڈ اور مرسو مرسو کارڈ لے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ کو پنجاب کے سیلاب متاثرین پر سیاست کرنے کے لیے وزیراعظم نے کہا تھا؟ بلاول بھٹو وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی اپنی جماعت سمیت وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی جڑیں کھوکھلی کر رہے تھے۔ جن کے اپنے گھر باپ بیٹے کی نہیں بنتی وہ ہمارے گھر میں فضول طعنے کر کے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔