جمعہ, اکتوبر 3, 2025
ہومLatestبی آر آئی جال نہیں مواقع فراہم کرتا ہے، برطانوی سکالر

بی آر آئی جال نہیں مواقع فراہم کرتا ہے، برطانوی سکالر

لندن(شِنہوا)اوپن یونیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے پروفیسر جائلز موہن نے کہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) افریقہ اور یورپ کو عملی ترقیاتی مواقع فراہم کر رہا ہے، نہ کہ کوئی "جال” بچھا رہا ہے۔

موہن یورپ میں بنیادی ڈھانچے کی چینی سرمایہ کاری پر یورپی ریسرچ کونسل کے ایک منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات شمال مغربی برطانیہ میں واقع لانکاسٹر یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کی میزبانی میں منعقدہ 5 ویں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو انٹر ڈسپلنری کانفرنس میں شرکت کے موقع پر شِنہوا کو ایک انٹرویو میں کہی۔

چین کی بیرون ملک سرگرمیوں کا تقریباً 2 دہائیوں تک مطالعہ کرنے والے موہن نے کہا کہ بی آر آئی کے بارے میں مغربی بیانیے کا بڑا حصہ گمراہ کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر آئی کے بارے میں کچھ تشریحات ادھوری اور کبھی کبھی بالکل غلط ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ منصوبے حقیقت میں زمینی سطح پر کیسے عملی شکل اختیار کرتے ہیں۔

موہن، جنہوں نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں افریقہ میں چین سے متعلق اپنی تحقیق شروع کی، نے نام نہاد ’’قرض کے جال کی سفارت کاری‘‘ کے دعوؤں کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ چین افریقی تیل پر ’’قبضہ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ موہن نے کہا کہ جب ہم نے حقیقت میں شواہد کا جائزہ لیا تو یہ درست ثابت نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ افریقہ میں جب مقامی حکومتیں اپنی ترقیاتی ترجیحات کو اچھی طرح متعین کر لیتی تھیں تو چینی بینکوں کی معاونت سے چلنے والے منصوبے عموماً کامیاب ثابت ہوتے تھے۔

موہن کا ماننا ہے کہ یورپ میں بھی چینی سرمایہ کاری کو عجلت میں نام نہاد ’’سکیورٹی خطرہ‘‘ قرار دینا غلط ہے۔ خوش قسمتی سے اس خطے کا چین کے ساتھ رویہ بتدریج زیادہ حقیقت پسندانہ ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی بحران کے بعد چینی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا گیا لیکن بعد میں بحث و مباحثے زیادہ محتاط ہوگئے۔ اب ان کے بقول لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دراصل ہمیں چین کی اور چین کو ہماری ضرورت ہے۔ یہ ایک زیادہ حقیقت پسندانہ تعلق ہوگا۔ منصوبوں کا زیادہ تنقیدی جائزہ ضرور لیا جائے گا مگر مکمل طور پر رد نہیں کیا جائے گا۔

موہن نے موقف اختیار کیا کہ بی آر آئی کے منصوبوں کو نعروں کے بجائے ان کے نتائج کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور ونڈ فارمز اس بات کی مثال ہیں کہ تعاون کس طرح فوری ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!