جمعرات, اگست 21, 2025
ہومLatestحقیقت میں "قرض کے جال" کے پیچھے کون؟ نئی رپورٹ میں اصل...

حقیقت میں "قرض کے جال” کے پیچھے کون؟ نئی رپورٹ میں اصل کہانی عیاں

لندن(شِنہوا)کئی برسوں سے کچھ مغربی سیاست دان اور ذرائع ابلاغ یہ بیانیہ آگے بڑھاتے رہے ہیں کہ چین ترقی پذیر ممالک کو "قرض کے جال” میں پھنسارہا ہے لیکن لندن میں قائم فلاحی ادارے ڈیٹ جسٹس کی ایک نئی رپورٹ نے عیاں کیا ہے کہ اصل کہانی بالکل مختلف ہے۔

88  معیشتوں پر مشتمل اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2020 سے 2025 کے دوران کم آمدنی والی معیشتیں اپنے بیرونی قرض کی ادائیگیوں کا 39 فیصد تجارتی قرض دہندگان،34  فیصد کثیرالجہتی اداروں اور صرف 13 فیصد چینی سرکاری و نجی قرض دہندگان کو بھیجتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اصل بوجھ کہیں اور ہے۔

رپورٹ نے کچھ نمایاں مثالوں کی نشاندہی کی۔ کان کنی کی بڑی کمپنی گلین کور نے چاڈ کو قرض میں کوئی ریلیف دینے سے انکار کیا۔ ساڑھے 4 سال کی بات چیت کے بعد بھی زیمبیا بعض نجی قرض دہندگان، جن میں برطانیہ میں قائم سٹینڈرڈ چارٹرڈ بھی شامل ہے، کے ساتھ کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکا۔ سری لنکا میں ہیملٹن ریزرو بینک نے بانڈ ہولڈرز کی تنظیم نو کو مسترد کیا اور نیویارک کی عدالت میں مقدمہ چلانے پر مصر ہے۔

یہ قرض دہندگان جو بڑی حد تک مغربی ہیں، ایک سخت گیر اور منافع کو اولین ترجیح دینے والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ڈیٹ جسٹس کے پالیسی سربراہ ٹم جونز نے کہا کہ مغربی رہنما افریقہ میں قرض کے بحران کا الزام چین پر لگاتے ہیں لیکن یہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اپنے بینک، اثاثہ جاتی منیجرز اور تیل کے تاجر کہیں زیادہ ذمہ دار ہیں۔

اصل مسئلہ صرف قرض کے حجم کا نہیں بلکہ اس کی شرائط کا ہے۔ چین کی "صبر آزما سرمایہ کاری” جو طویل المدتی ترقی پر زور دیتی ہے، کے برعکس مغربی تجارتی قرض دہندگان اور کثیرجہتی ادارے عموماً قلیل المدتی منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے قرضے بلند شرح سود، سخت ادائیگی کی شرائط اور بعض اوقات سیاسی پابندیوں کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ امتزاج ایک ایسے چکر کو جنم دیتا ہے جو انحصار اور مالی کمزوری پیدا کرتا ہے۔ وہی اصل جال جس سے بہت سے ترقی پذیر ممالک نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔ گلوبل ساؤتھ طویل عرصے سے مغربی مالیاتی سخت رویّے کے نتائج بھگت رہا ہے۔ لاطینی امریکہ میں 1989 کے واشنگٹن اتفاق رائے نے حکومتوں کو قرضوں کے عوض ریاستی اثاثے نجی شعبے کے حوالے کرنے، معیشت کو بے ضابطگی سے آزاد کرنے اور تجارت و مالیات کو آزاد کرنے پر مجبور کیا۔

ترقی کو فروغ دینے کے بجائے ان پالیسیوں نے معاشی خودمختاری کو کھوکھلا کردیا اور سماجی بے چینی کو ہوا دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہونڈوراس کے نائب وزیر خارجہ جیرارڈو ٹوریس نے کہا کہ دہائیوں سے مغربی ممالک نے اپنے مالیاتی اصول قرضوں کے ذریعے مسلط کئے ہیں، جو کبھی حقیقی ترقی کا باعث نہیں بنے۔

اس چکر سے نکلنے کے لئے صرف قرض معاف کروانا کافی نہیں بلکہ متنوع اور پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔ اور یہی وہ میدان ہے جہاں چین نے اپنی کوششیں مرکوز کی ہیں۔

افریقہ بھر میں جہاں "قرض کے جال” کی کہانی سب سے زیادہ دہرائی جاتی ہے، چینی مالی اعانت نے تقریباً ایک لاکھ کلومیٹر سڑکیں، 10 ہزار کلومیٹر سے زائد ریلویز اور تقریباً 100 بندرگاہیں تعمیر اور بہتر کرنے میں مدد دی ہے۔ یہ سرمایہ کاری رابطہ کاری، صنعتی ترقی اور طویل المدتی نمو کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ افریقی رہنماؤں نے واضح طور پر کہا ہے کہ چین کا کردار شکاری نہیں بلکہ شریک کار کا ہے۔

بنیادی طور پر "قرض کے جال” پر بحث صرف مالیات تک محدود نہیں ہے۔ دہائیوں تک مغرب کے زیر اثر قرض کے نظام نے ترقی پذیر معیشتوں کو محدود کیا اور ان کے اپنے راستے خود منتخب کرنے کے حق کو کم کیا۔ اس کے برعکس چین کا تعاون کا ماڈل ان زنجیروں کو توڑنے اور ترقی کے نئے راستے کھولنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آخرکار سوال صرف قرض کے بارے میں نہیں بلکہ اس بات کے بارے میں ہے کہ 21 ویں صدی میں ترقی کے اصول کون طے کرے گا اور ان اصولوں کے تعین میں کس کی آواز سنی جائے گی۔

اگر واقعی کوئی جال ہے تو وہ پرانی کہانیوں کا برقرار رہنا ہے جو ذمہ داری کو ٹالتی ہیں اور عالمی مالیاتی نظام میں موجود ساختی عدم مساوات کو چھپاتی ہیں۔ صرف ان کہانیوں کو بدل کر ہی زیادہ منصفانہ اور پائیدار متبادل کے لئے جگہ بنائی جا سکتی ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!