اسلام آباد: قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2024کی منظوری دے دی۔ بدھ کو قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے تحریک پیش کی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ1997ء میں مزید ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔
رہنماء پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا جس کے جواب میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اگر ترامیم پڑھ لی جاتی تو یہ اعتراضات نہ اٹھاتے، گزشتہ قانون کو ری ڈرافٹ کیا گیا ہے، اس پر حکومت کے پاس جو ترامیم آئی ہیں حکومت نے اس کی مخالفت نہیں کی اس کو شامل کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ2014ء میں اس میں ترمیم کرکے 2 سال تک نافذ العمل کیا گیا۔ بل کے تحت گرفتار افراد کو 24گھنٹے میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہے، آئین کے تحت سکیورٹی، سیفٹی اور ملکی تحفظ کیلئے کسی فرد کو 90دن تک زیر حراست رکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تجاویز دینے پر نعیمہ کشور اور سید نوید قمر کا شکریہ ادا کرتے ہیں،اس کی مدت تین سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے،بل میں جوڈیشل ریویو کا بھی اختیار دیا گیا۔اس موقع پر نوید قمر نے کہا کہ ملک معمول کے حالات میں ہو تو آئین بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے، کچھ ایسے حالات ہو جاتے ہیں کہ اپنے عوام کی جان ومال کو محفوظ بنانے کے کچھ اقدامات اٹھانے ہوتے ہیں، ان قوانین کو کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
موجودہ سکیورٹی حالات میں دو صوبوں میں لگی آگ کو کنٹرول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سکیورٹی فورسز کو اختیار دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسی چیزیں اس سے نکال دیں اور کسی کے خلاف مشتبہ قرار دے کر نہیں بلکہ ثبوت موجود ہونے پر استعمال یقینی بنانے کی بات کی۔
وزیر مملکت داخلہ نے عالیہ کامران کی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی لہر سے نمٹنے ،فرنٹ لائن سیکیورٹی فورسز کی مدد کیلئے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ دو سے تین سکیورٹی اہلکار روزانہ شہید ہورہے ہیں۔
عالیہ کامران نے کہا کہ جرم کی تصدیق پر سزا ہوتی ہے، یہاں معقول شک پر گرفتاری کی اجازت دی جارہی ہے، ہم نے کہا کہ اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھجوایا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جو ترمیم لائی جارہی ہے اس کی قانونی ضرورت کے بارے میں ماہرین قانون بہتر جانتے ہیں ایسے قوانین کا طویل ماضی ہے،دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی زیر قیادت چل رہی تھی اور مشرف دور میں اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا گیا۔
اراکین کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے ترمیم ایوان میں پیش کی جس پر مطلوبہ تعداد پوری نہ نکلی اور تحریک کو مسترد کردیا گیا۔ بعد ازاں شق وار منظوری کے دوران سید نوید قمر کی ترمیم کی ایوان نے منظوری دے دی۔شق وار منظوری کے بعد طلال چوہدری نے بل منظوری کیلئے پیش کیا جسے منظور کرلیا گیا