واشنگٹن(شِنہوا)امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے حکام نے امریکی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مواد پر پابندی لگانے میں ملوث یورپی یونین اور برطانیہ کے 5 افراد پر ویزا کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
یہ ویزا پابندیاں امریکی انتظامیہ کی طرف سے اس ماہ جاری کی جانے والی قومی سلامتی پالیسی کے بعد عائد کی گئی ہیں، جس میں یورپی رہنماؤں پر اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کسی مخصوص ناموں کا ذکر کئے بغیر کہا کہ محکمہ خارجہ ان 5 افراد کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کر رہا ہے جنہوں نے امریکی پلیٹ فارمز کو مجبور کرنے کے لئے منظم کوششوں کی قیادت کی ہے تاکہ ان امریکی نظریات، جس کی وہ مخالفت کرتے ہیں، کو محدود کیا جا سکے، انہیں دبایا جاسکے یا انہیں آمدنی سے محروم کیا جاسکے۔
بعد ازاں عوامی سفارت کاری کی انڈر سیکرٹری سارا روجرز نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر ان افراد کے نام ظاہر کئے، جن میں سابق یورپی کمشنر برائے داخلی مارکیٹ تھیری بریٹن بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ڈیجیٹل سروس ایکٹ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
روجرز کے مطابق جن افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں ان میں ایک برطانوی شہری اور امریکہ میں قائم ڈیجیٹل نفرت کے انسدادی مرکز کے چیف ایگزیکٹوعمران احمد، جرمن غیر منافع بخش تنظیم ہیٹ ایڈ کی اینا لینا وون ہوڈن برگ اور جوزفینی بالون اور گلوبل ڈس انفارمیشن انڈیکس کے شریک بانی کلئیر ملفورڈ شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہوڈن برگ اور بالون نے ایک بیان میں کہا کہ ویزا پابندیوں کا مقصد یورپی قوانین کو ان امریکی کمپنیوں پر نافذ کرنے سے روکنا ہے جو یورپ میں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سنسرشپ جیسے الزامات کے استعمال سے خوفزدہ نہیں ہوں گے جبکہ "گلوبل ڈس انفارمیشن انڈیکس” کے ایک ترجمان نے امریکی اقدام کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیا اور اسے ایک آمرانہ عمل سے تعبیر کیا جو آزادی اظہار کو نقصان پہنچاتا ہے اور حکومتی سنسرشپ کے مترادف ہے۔


