بیجنگ(شِنہوا)80 برس قبل دنیا نے فسطائیت کے خلاف جنگ میں عظیم فتح حاصل کی۔ کروڑوں انسانی جانوں کی قربانی دے کر انسانیت نے فسطائی قوتوں کو شکست دی، انسانی تہذیب کا دفاع کیا اور جنگ کی تباہ کاریوں میں اقوام متحدہ کو مرکز بنا کر جنگ کے بعد کا بین الاقوامی نظام قائم کیا تاکہ مستقبل کی تباہ کاریوں کو روکا جا سکے۔
تاہم جب دنیا جنگ عظیم میں فتح کی 80 ویں سالگرہ منا رہی ہے، جاپان کی وزیراعظم سنائی تاکائیچی نے تاریخ کے دھارے کے خلاف قدم اٹھانے کا انتخاب کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جاپان کی ایک نام نہاد ’’بقا کو لاحق خطرے کی صورتحال‘‘ کو ’’تائیوان کی ہنگامی صورت حال‘‘ سے جوڑا جس سے چین کے خلاف طاقت کے استعمال کا عندیہ ملتا ہے۔
ان کے بیانات نے وسیع پیمانے پر صدمے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیانات نہ صرف چین کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت ہے بلکہ جنگ عظیم دوم کے بعد قائم ہونے والے بین الاقوامی نظام کے لئے بھی ایک کھلا چیلنج ہیں اور دنیا کو ایک نہایت خطرناک اور گمراہ کن پیغام دیتے ہیں۔

ٹوکیو بے میں لنگر انداز امریکی بحریہ کے جنگی جہاز یو ایس ایس میسوری پر جاپان کی ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا منظر-(شِنہوا)
جاپان کی شکست ایک ایسا اہم تاریخی موڑ تھی جس نے جنگ عظیم دوم کے بعد کے بین الاقوامی نظام کی تشکیل کی راہ ہموار کی اور اسی نظام نے تائیوان کی چین کو واپسی کو قانونی شکل دی۔
تائیوان قدیم زمانے سے چین کے مقدس علاقے کا حصہ رہا ہے۔ جاپان نے 1894 میں پہلی چین-جاپان جنگ چھیڑی اور بعد ازاں چھنگ حکومت کو غیر مساوی معاہدہ شیمونوسیکی پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں تائیوان پر جاپان کی 50 سالہ نوآبادیاتی حکمرانی قائم ہوئی جو جزیرے کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا اور بے شمار مظالم سے عبارت تھا۔
دسمبر 1943 میں چین، امریکہ اور برطانیہ نے قاہرہ اعلامیہ جاری کیا جس میں طے کیا گیا کہ جاپان نے تائیوان اور پینگ ہو جزائر سمیت چین سے جو بھی علاقے چھینے ہیں وہ سب چین کو واپس کئے جائیں گے۔ لفظ ’’بحالی‘‘ نہ صرف تاریخی حقائق کے اعتراف کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس قانونی دعوے کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ تائیوان اصل میں چین کا حصہ تھا۔
ایک چین کا اصول نہ صرف بین الاقوامی اتفاق رائے بن چکا ہے بلکہ اسی نے چین-جاپان تعلقات کی معمول پر واپسی کی سیاسی بنیاد بھی فراہم کی۔ 1972 کے چین-جاپان مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’جاپان کی حکومت عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو چین کی واحد قانونی حکومت تسلیم کرتی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’عوامی جمہوریہ چین کی حکومت اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ تائیوان عوامی جمہوریہ چین کے علاقے کا اٹوٹ حصہ ہے۔ معاہدے میں تسلیم کیا گیا کہ جاپان کی حکومت عوامی جمہوریہ چین کے اس موقف کو پوری طرح سمجھتی اور اس کا احترام کرتی ہے اور پوٹسڈیم اعلامیہ کے آرٹیکل 8 کے تحت اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے گی۔
یہ موقف بعد ازاں چین اور جاپان کے درمیان طے پانے والی مزید 3 سیاسی دستاویزات میں بھی واضح طور پر دہرایا گیا۔ یہ دستاویزات جاپانی حکومت کی جانب سے کئے گئے سنجیدہ وعدوں اور دوسری جنگ عظیم میں شکست خوردہ ملک کے طور پر اس کی عالمی ذمہ داریوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
لہٰذا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد تائیوان کے حوالے سے تاکائیچی کے اشتعال انگیز بیانات دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی جاپانی رہنما کی جانب سے کئی ’’اولین‘‘ اقدامات کی علامت ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد کسی جاپانی رہنما نے سرکاری سطح پر یہ موقف اختیار کیا کہ ’’تائیوان کی ہنگامی صورت حال جاپان کی ہنگامی صورت حال ہے‘‘ اور اسے اجتماعی دفاع کے حق کے استعمال سے جوڑا۔ یہ پہلی بار ہے کہ جاپان نے تائیوان کے مسئلے میں عسکری مداخلت کی خواہش ظاہر کی اور پہلی بار جاپان نے چین کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔


