بیجنگ(شِنہوا)چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ کو دوطرفہ تعلقات میں مثبت رفتار برقرار رکھنی چاہیے اور برابری، احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر درست سمت میں آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔
شی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ گزشتہ ماہ بوسان میں ان کی ملاقات کامیاب رہی تھی اور اس دوران کئی اہم مشترکہ سمجھوتے طے پائے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے چین۔امریکہ تعلقات کے "عظیم جہاز” کی سمت درست کی اور اسے پرخطر حالات میں بھی مستحکم طور پر آگے بڑھانے کے لئے مزید توانائی فراہم کی جس سے دنیا کو ایک مثبت پیغام گیا۔
شی نے کہا کہ اس کے بعد سے چین۔امریکہ تعلقات مجموعی طور پر ایک مستحکم اور مثبت سمت برقرار رکھے ہوئے ہیں اور یہ دونوں ممالک اور وسیع تر بین الاقوامی برادری کے لئے خوش آئند ہے۔
شی نے کہا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ چین۔امریکہ تعاون کی یہ خاصیت کہ یہ دونوں کے لئے فائدہ مند ہے اور محاذ آرائی دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے، ایک ایسی حقیقت ہے جسے بارہا تجربے نے صحیح ثابت کیا ہے۔ یہ تصور کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے کی کامیابی اور مشترکہ خوشحالی کے لئے معاون ثابت ہوں ایک قابل حصول اور حقیقی امکان ہے۔
چینی صدر نے کہا کہ فریقین کو تعاون کی فہرست کو بڑھانا چاہیے اور مسائل کی فہرست کو کم کرنا چاہیے تاکہ زیادہ مثبت پیش رفت ہو سکے، چین۔امریکہ تعاون کے لئے نئی گنجائش پیدا ہو سکے اور دونوں ممالک اور دنیا کے عوام کو زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔
شی نے تائیوان کے مسئلے پر چین کا اصولی موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان کی چین میں واپسی جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی نظم کا ایک لازمی حصہ ہے۔
شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور امریکہ نے فسطائیت اور عسکریت پسندی کے خلاف شانہ بشانہ لڑائی لڑی تھی اور موجودہ حالات کے پیش نظر یہ اور بھی ضروری ہے کہ دونوں مل کر دوسری جنگ عظیم کی فتح کے ثمرات کا تحفظ کریں۔
ٹرمپ نے کہا کہ صدر شی ایک عظیم رہنما ہیں اور انہوں نے بوسان میں شی سے اپنی ملاقات کا بے حد لطف اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں شی کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں رہنما بوسان میں جن تمام امور پر متفق ہوئے تھے، ان پر پوری طرح عملدرآمد کر رہے ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ چین دوسری جنگ عظیم کی فتح کا ایک اہم حصہ تھا اور زور دیا کہ امریکہ اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ تائیوان کا معاملہ چین کے لئے کس قدر اہم ہے۔
دونوں صدور نے یوکرین کے بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ شی نے امن کے لئے تمام معاون کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ تمام متعلقہ فریق اختلافات کم کریں، جلد از جلد ایک منصفانہ، دیرپا اور ناگزیر امن معاہدے تک پہنچیں اور بحران کو اس کی جڑ سے حل کریں۔



