منگل, نومبر 25, 2025
ہومانٹرنیشنلموسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے باتوں سے زیادہ عملی اقدامات درکار

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے باتوں سے زیادہ عملی اقدامات درکار

بیجنگ(شِنہوا)دنیا کو چونکہ موسمیاتی بحران کی بڑھتی ہوئی شدت کا سامنا ہے اس لئے عالمی توقعات اور اس سے نمٹنے کے لئے اٹھائے گئے حقیقی اقدامات کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کی طرف توجہ تیزی سے مبذول ہو رہی ہے۔

اگرچہ کچھ مغربی آوازیں ترقی پذیر ممالک کی خامیوں کو چُن کر ذمہ داری سے کنی کترا نے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یہاں تک کہ انتہائی شکوک و شبہات رکھنے والے مبصرین بھی گزشتہ ایک دہائی میں چین کی جانب سے کئے گئے ٹھوس اقدامات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

یہ تضاد اس وقت مزید نمایاں ہو گیا ہے جب امریکہ ایک بار پھر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ دوبارہ پیرس معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی کو ایک "جھوٹ” قرار دے رہا ہے اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی 30 ویں کانفرنس برائے موسمیاتی تبدیلی (کوپ30) میں شرکت بھی ترک کر دی ہے۔

اسی دوران چین اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تحت قائم کئے گئے کثیرالجہتی نظاموں کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور اس نے پیرس معاہدے کو اپنانے اور اس پر عملدرآمد میں تاریخی اور اہم کردار ادا کیا ہے۔

ستمبر میں چین نے اخراج میں کمی کا اپنا پہلا ہدف مقرر کیا جس کے تحت 2035 تک مجموعی طور پر ملک گیر گرین ہاؤس گیسوں کے خالص اخراج کو عروج کی سطح سے 7 سے 10 فیصد تک کم کرنے کا عزم کیا گیا۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جون 2025 کے اختتام تک چین کی نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت 2.159 ارب کلو واٹ تھی جو اس کی کل نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا تقریباً 59.2 فیصد ہے۔ اس کی مجموعی توانائی کی کھپت میں غیر فوسل ایندھن کی کھپت کا تناسب 2020 میں 15.9 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 19.8 فیصد ہو گیا ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!