بنگلہ دیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم حسینہ واجد کیخلاف فیصلہ سناتے ہوئے انکو انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب قرار دیکر مجرم ٹھہرا دیا ہے۔
سابق وزیراعظم کیخلاف تین ججز پر مشتمل ٹربیونل نے فیصلہ سنایا، جسٹس ایم ڈی غلام مرتضیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق عدالت میں تین ملزمان میں سے صرف سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللہ المامون پیش ہوئے، المامون نے جولائی میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور ریاستی گواہ کے طور پر بیان بھی دیا، سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ اور سابق وزیرِ داخلہ اسدالزمان کمال مفرور ہیں۔
حسینہ واجد کیخلاف فیصلہ 450 صفحات پر مشتمل ہے، عدالت نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد نے بطور وزیراعظم مظاہرین پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا، انہوں نے مظاہرین پر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرایا۔
سابق وزیراعظم کیخلاف انسانیت کے جرائم کا مقدمہ گزشتہ سال سے زیر سماعت تھا جس میں انہیں سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔
شیخ حسینہ اگست 2024 میں بنگلہ دیش چھوڑ کر نئی دہلی میں جلاوطنی میں رہ رہی ہیں۔ 78 سالہ حسینہ نے عدالت کے احکامات کو رد کرتے ہوئے عدالت میں پیشی کیلئے بھارت سے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے فیصلے کی تاریخ مقرر کئے جانے پر چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں سے کہا تھا کہ انصاف قانون کے مطابق فراہم کیا جائیگا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت دانشمندی سے کام لے گی، انصاف کی پیاس بجھائی جائیگی اور یہ فیصلہ جرائمِ انسانی کے خاتمے کا نشان بنے گا۔
عدالت نے غیر حاضری میں مہینوں تک شہادت سنی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حسینہ نے بڑے پیمانے پر قتل کا حکم دیا تھا، شیخ حسینہ واجد نے اس مقدمے کو قانونی مذاق قرار دیا۔
حسینہ واجد کو عدالت کیلئے ریاستی وکیل فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے عدالتی اختیار تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ تمام الزامات کو رد کرتی ہیں۔
فیصلے کی تاریخ مقرر ہونے پر عدالت کے اردگرد سیکیورٹی فورسز موجود تھیں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے چیک پوائنٹس مضبوط کئے گئے۔


