بینکاک(شِنہوا)ایک تھائی ماہر اقتصادیات نے کہا ہے کہ چین کی مزید وسعت کے عزم نے تھائی لینڈ اور گلوبل ساؤتھ کے دیگر ممالک کو چین کے ساتھ قریبی شراکت داری قائم کرنے کے قابل بنایا ہےجس سے مشترکہ خوشحالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔بینکاک میں قائم پنیاپیوت انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے صدر سومپوپ منارنگ سان نے شِنہوا کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ چین نے طویل عرصے سے کثیر الجہتی کو برقرار رکھا ہے اور اقوام متحدہ اور عالمی تجارتی تنظیم کے کام میں فعال طور پر حصہ لے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ باہمی مفید تعاون کا یہ نقطہ نظر نہ صرف چین کی پائیدار ترقی کو سہارا دے رہا ہے بلکہ تھائی لینڈ اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔چین کئی سالوں سے تھائی لینڈ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ چین کے جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی میں دو طرفہ تجارت 76.1 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال کی نسبت 17 فیصد زیادہ ہے۔چین تھائی لینڈ کی دوسری سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے اور تھائی لینڈ کی 40 فیصد سے زیادہ زرعی برآمدات کے لئے سرفہرست منزل ہے۔سومپوپ نے کہا کہ تھائی لینڈ اس وقت 13 ویں قومی اقتصادی اور سماجی ترقیاتی منصوبے (2023-2027) پر عمل پیرا ہے جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی 20 ویں مرکزی کمیٹی نے اپنے چوتھے مکمل اجلاس میں 15 ویں 5 سالہ منصوبے کی تشکیل کے لئے سفارشات کو منظور کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اختراع پر مبنی ترقی اور ماحول دوست تبدیلی جیسے بہت سے ترقیاتی اہداف مشترک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سمارٹ سیاحت، ڈیجیٹل خدمات اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا دو طرفہ تجارت میں نئی تحریک پیدا کرے گا اور علاقائی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔



