جمعرات, اکتوبر 30, 2025
ہومChinaچین میں تعلیم سے تدریس تک،پاکستانی اساتذہ کی محنت اور جذبے نے...

چین میں تعلیم سے تدریس تک،پاکستانی اساتذہ کی محنت اور جذبے نے چینی طلبہ کے دل جیت لیے

حضرت حسن کلاس روم میں طلبہ کو سبق پڑھا رہے ہیں۔(شِنہوا)

جنان(شِنہوا)شان ڈونگ ویمنز یونیورسٹی کے سکول آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 2 غیر ملکی اساتذہ حضرت حسن اور شباحت علی کو طلبہ بہت پسند کرتے ہیں۔ طلبہ انہیں "دلچسپ نصف چینی” کہتے ہیں اور وہ خود کہتے ہیں کہ "ان کا مستقبل روشن ہے اور انہیں چین میں زندگی بامعنی لگتی ہے۔”

35 سالہ ڈاکٹر حضرت حسن نے سیچھوان یونیورسٹی سے مینیجمنٹ سائنس اینڈ انجینئرنگ میں گریجویشن کی اور 2024 میں جیانگسو یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ مکمل کیا۔ انہوں نے کہا کہ چین کی تیز رفتار معاشی و سماجی ترقی اور اعلیٰ تعلیمی معیار نے مجھے یہاں آنے پر راغب کیا۔ بطور بین الاقوامی طالب علم میری توجہ تعلیم حاصل کرنے اور ہم عمروں سے دوستی بنانے پر تھی۔ اب بطور استاد میری توجہ طلبہ کی رہنمائی اور اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے پر ہے۔

اس سال عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومتوں کے درمیان دستخط ہونے والے نئے دور میں مشترکہ مستقبل کے حامل قریبی چین-پاکستان معاشرے کے قیام کے ایکشن پلان (2025-2029) میں کہا گیا ہے کہ طلبہ، اساتذہ اور محققین کے درمیان تبادلے کو مزید فروغ دیا جائے اور دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں کی صلاحیت سازی اور سائنسی تحقیق جیسے شعبوں میں عملی تعاون کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

چین میں پاکستانی نوجوانوں کے لئے اب کیریئر کے مزید مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں حضرت حسن انگریزی میں 2 مضامین پروفیشنل انگلش اور پبلک سپیکنگ پڑھاتے ہیں۔ بہتر تدریس کے لئے انہوں نے انگریزی اور چینی الفاظ پر مبنی 2 لسانی سلائیڈز تیار کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار طلبہ زبانی اظہار میں شرمیلے ہوتے ہیں تو میں انہیں حوصلہ دیتا ہوں کہ تلفظ درست نہ بھی ہو تو بلا جھجک بولیں۔ اب کلاسز زیادہ موثر ہو گئی ہیں۔ کلاس کے بعد بھی طلبہ مجھے ای میل کے ذریعے علمی سوالات بھیجتے ہیں۔ چینی طلبہ بہت محنتی ہیں۔

چین کے بارے میں اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے حضرت حسن نے تین الفاظ "بہت” استعمال کئے "بہت بڑا، بہت خوبصورت، اور بہت ہم آہنگ۔” انہوں نے کہا کہ لوگ بہت مہذب ہیں اور انسانوں کے درمیان گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ سب خوشحال اور مستحکم زندگی کے خواہاں ہیں۔ ایک پاکستانی کہاوت ہے کہ ‘اچھا پڑوسی ایک نعمت ہے’ اور چینی بھی کہتے ہیں کہ ‘قریب کا پڑوسی دور کے رشتہ دار سے بہتر ہے۔’ اب ان کی اہلیہ اور 2 بچے بھی شان ڈونگ میں مقیم ہیں۔

"چین کو سمجھنے” سے "چین کو بانٹنے” تک پاکستانی اساتذہ چین کی تبدیلیوں کو قریب سے محسوس کر رہے ہیں، اس کی وسعت اور شمولیت کے گواہ بن رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلے کا پل تعمیر کر رہے ہیں۔ حضرت حسن نے کہا کہ میں اکثر اپنے پاکستانی دوستوں اور ہم جماعتوں کو ترغیب دیتا ہوں کہ وہ تعلیم اور ذاتی ترقی کے مواقع کے لئے چین آئیں۔

حضرت حسن کیمپس میں تعلیمی بصیرت اور تجربات شیئر کر رہے ہیں۔(شِنہوا)

36 سالہ شباحت علی نے ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سکول آف اکنامکس اینڈ مینیجمنٹ میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے موسم سرما اور گرما کی تعطیلات میں بارہا پاکستانی جامعات میں معلوماتی نشستیں منعقد کیں جن میں انہوں نے چینی ثقافت اور اعلیٰ تعلیمی نظام سے طلبہ کو متعارف کرایا اور ان پاکستانی طلبہ کو مشاورت فراہم کی جو چین میں طب اور مینجمنٹ وغیرہ جیسے مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طالب علم سے استاد بننے تک میں نے چین کے علمی ماحول کی محنت، وسیع النظری اور جدت پسندی کو گہرائی سے محسوس کیا ہے۔ اب مجھے فخر ہے کہ میں اپنے طلبہ کو چین کے قومی حالات کی بنیاد پر بین الاقوامی نقطہ نظر سے تحقیق میں رہنمائی فراہم کر رہا ہوں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ چین عظیم ہے اور یہاں آنا واقعی قابل قدر ہے۔

شان ڈونگ ویمنز یونیورسٹی کے سائنسی تحقیقاتی دفتر کی نائب ڈائریکٹر ژانگ چھون مئی نے بتایا کہ پاکستانی اساتذہ نے چین میں اپنے مشاہدات اور تحقیقات کی بنیاد پر متعدد اعلیٰ معیار کے بین الاقوامی تحقیقی مقالے شائع کئے ہیں اور کئی بین الاقوامی علمی تبادلوں میں حصہ لیا ہے۔ یونیورسٹی انہیں باقاعدگی سے علمی تجربات پر مبنی لیکچر دینے کی دعوت دیتی ہے تاکہ مقامی نوجوان اساتذہ اپنی بین الاقوامی علمی بصیرت کو وسعت دے سکیں۔

بزنس ایڈمنسٹریشن ٹیچنگ اینڈ ریسرچ آفس کے ڈائریکٹر شو لئی نے بتایا کہ یونیورسٹی نے غیر ملکی اساتذہ کے لئے منصفانہ اور شفاف پیشہ ورانہ درجہ بندی کے نظام اور جامع کیریئر کی ترقی کے راستے قائم کئے ہیں جس سے بین الاقوامی اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو بخوبی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس دوستانہ ماحول میں پاکستانی اساتذہ اپنے فارغ وقت میں چینی زبان اور گرائمر سیکھنے کے لئے مقامی اساتذہ سے مشورہ کرتے ہیں اور اب وہ زبردست جیسے چینی محاوراتی الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی اساتذہ چینی طلبہ کے لئے پاکستانی ثقافت اور روایات سے واقف ہونے کا ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ کلاس کے بعد طلبہ ان سے اکثر پوچھتے ہیں کہ "پاکستان میں گھومنے کے لئے کون سی دلچسپ جگہیں ہیں؟” ، "وہاں کون سے مزیدار کھانے ملتے ہیں؟” ، "وقت کا فرق کتنا ہے؟” یا "آپ کے ملک کی یونیورسٹیوں میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟” بزنس اینڈ مینیجمنٹ سکول کی 2023 بیچ کی طالبہ لیو پھنگ نے کہا کہ ہم انہیں اپنے آبائی علاقوں کی مقامی چیزیں چکھنے کے لئے دیتے ہیں اور وہ ہمیں پاکستانی خشک میوہ جات تحفے میں دیتے ہیں۔

یہ انسانی ہمدردی اور جامع تعلیمی ماحول چین میں بین الاقوامی اساتذہ اور طلبہ کے احساس تحفظ اور وابستگی کو مضبوط کر رہا ہے جو انہیں طویل مدتی طور پر تدریس اور تحقیق پر توجہ دینے کے قابل بناتا ہے۔ حضرت حسن نے کہا کہ جیسے جیسے تحقیقی تعاون اور ثقافتی تبادلے مزید گہرے ہوں گے، پاک-چین دوستی مزید مضبوط ہوگی۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!