سیئول(شِنہوا)چین، جاپان اور جنوبی کوریا کو ایشیا-بحرالکاہل اقتصادی تعاون (اپیک) کے لائحہ عمل کے اندر جدت پر مبنی تعاون کے ذریعے ایشیا-بحرالکاہل خطے میں نئی ترقی کی قیادت کرنی چاہیے جبکہ عالمی اقتصادی بحالی کا کام بھی جاری رکھنا چاہیے۔
سیئول میں قائم سہ فریقی تعاون سیکرٹریٹ (ٹی سی ایس) کے سیکرٹری جنرل لی ہی سپ نے حال ہی میں شِنہوا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ آج کی دنیا غیر معمولی حد تک کثیرجہتی اور غیر متوقع مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ خاص طور پر امریکہ کی محصولات کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والی تحفظ پسندی کے دوبارہ ابھرنے کے باعث عالمی معیشت کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکل حالات درپیش ہیں۔
لی ہی سپ نے زور دیا کہ تعاون کی فوری ضرورت ہر اپیک رکن ملک کی صلاحیتوں اور امکانات کو متحرک کرنے کی ایک محرک قوت بنے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والا اپیک اقتصادی رہنماؤں کا اجلاس عملی تعمیری منصوبے تیار کرے گا اور رکن ممالک کے درمیان تعاون اور یکجہتی کو مضبوط بنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا جنہوں نے اپیک لائحہ عمل کے تحت کثیرجہتی تعاون کے نظام میں اہم کردار ادا کیا ہے، کو مشترکہ طور پر آزاد تجارت اور عالمی اقتصادی بحالی کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ان تینوں ممالک کو مصنوعی ذہانت (اے آئی)، ڈیجیٹل انقلاب اور ماحول دوست صنعت جیسے مستقبل کے ترقیاتی شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔
لی نے کہا کہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے پاس ترقی کی بڑی صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی، سرمایہ اور افرادی قوت کے لحاظ سے نمایاں برتری موجود ہے، ان ملکوں کو یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، مختلف مسائل اور بحرانوں کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سال جنوبی کوریا اور اگلے سال چین کی جانب سے مسلسل اپیک اجلاسوں کی میزبانی عالمی اقتصادی ترقی، آزاد تجارت اور علاقائی اقتصادی انضمام کو آگے بڑھانے کا ایک اہم موقع فراہم کرے گی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چین ایشیا-بحرالکاہل خطے میں اقتصادی تعاون کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔
سہ فریقی گروپ کے سربراہ کی حیثیت سے کئی بار چین کا دورہ کرنے والے لی ہی سپ نے کہا کہ چین نے ایشیا-بحرالکاہل خطے میں اقتصادی انضمام اور کثیرجہتی تعاون کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جبکہ وہ آزاد تجارت، کھلے پن اور شمولیت کو فعال طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے چین کے مختلف حصوں کا دورہ کیا تو میں نے محسوس کیا کہ چین کی قومی حکمت عملی ڈیجیٹلائزیشن، مصنوعی ذہانت، ماحول دوست صنعت اور جدت پر توجہ دیتے ہوئے نئی معیاری پیداواری قوتوں کو بڑی تیزی سے فروغ دے رہی ہے۔ یہ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کے لئے پائیدار ترقی کی ایک محرک قوت بنے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے چین نے بڑی پیشرفت کی ہے۔ چین کے ہر گوشے میں چاہے بڑا شہر ہو یا چھوٹا قصبہ، تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ میں ہمیشہ چین کی مستقبل کی ترقی کے لئے پرامید رہتا ہوں۔



