کابل: افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ بگرام ایئربیس افغانستان کا حصہ ہے، افغانستان کے کسی بھی گوشے کی طرح اس کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے، اس لیے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ یہ امریکہ کے حوالے کیا جائے یا اس بارے میں امریکہ سے کوئی سودے بازی کی جائے۔
عرب میڈیا کو انٹرویو میں انہوںنے کہا کہ افغان اپنی سرزمین اور اس پر اپنے کنٹرول کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ وہ کبھی بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ ان کی زمین کا ٹکڑا کسی اور کے قبضے میں دیا جائے۔ حتی کہ ہم اپنی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو دینے کو تیار نہیں ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ٹرمپ کو خیال رہنا چاہیے ہم نے امریکا کے 20 سالہ قبضہ کے دوران افغانستان میں اس طرح کی بہت سی بری چیزیں اور برے واقعات برداشت کر لیے ہیں لیکن امریکیوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر برے ایکشن کا انہیں برا ردعمل قبول کرنا ہوگا اور وہ جانتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی انہیں بالآخر افغانستان سے اپنی فوج نکالنا پڑی تھی، اس لیے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان ایسا ملک نہیں ہے کہ وہ اس پر قبضہ کر سکیں یا اپنے سامنے سر نگوں کر لیں۔
ترجمان نے تصدیق کی کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے پر فوکس رہا،سفارتی تعلقات پر بات ہوئی، معیشت اور سرمایہ کاری زیر بحث آئی لیکن بگرام ایئربیس کا قبضہ کبھی زیر بحث نہیں آیا اور نہ ہی اس پر بات کی جا سکتی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا بلاشبہ افغانستان چاہتا ہے کہ یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو، امریکہ بھی سرمایہ کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بگرام برائے فروخت ہے۔ انہوں نے کہا طالبان آج بھی امریکہ کے ساتھ اپنے روابط کو جاری رکھنے کے لیے کھلا دل رکھتا ہے، پہلے بھی افغانستان نے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے ہیں، اب یہ امریکہ پر ہے کہ وہ ان اقدامات کا جواب کیسے دیتا ہے، اگر وہ حقیقت پسندی، سفارتکاری اور معاشی تعاون پر یقین رکھتے ہیں تو افغانستان بھی ان کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کے لیے تیار ہے لیکن اگر ان کا اصرار بگرام ایئربیس کے حوالے سے قبضے یا تعاون پر ہے تو افغانستان کی اس بارے میں پوزیشن بڑی واضح ہے جو آپ کے سامنے بیان کر دی گئی ہے۔
ہم اپنی سرزمین، اپنی عزت اور اقدار کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری پچھلے 20 برسوں میں بھی رھی ہے، آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہم یہ ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔یاد رہے بگرام ایئربیس کابل کے شمال میں واقع ہے اور اشرف غنی حکومت کے زمانے تک اس بگرام ایئربیس پر امریکی قبضہ رہا ہے۔
دو دہائیوں کی اس امریکی لڑائی کے دوران یہ ایئربیس امریکی ہتھیاروں اور تنصیبات کا اہم مرکز رہا۔ تاہم جولائی 2021 کو محض چند ہفتے پہلے جب امریکی فوج نے افغانستان سے اپنا انخلا قبول کر لیا تو اسرائیلی فوج نے بگرام ایئربیس خالی کر دیا۔