بدھ, ستمبر 3, 2025
ہومLatestتیانجن سے پنجاب،چینی گوبھی کی اقسام پاکستان اور اس سے آگےزراعت کا...

تیانجن سے پنجاب،چینی گوبھی کی اقسام پاکستان اور اس سے آگےزراعت کا ذریعہ

اسلام آباد(شِنہوا)محمد صفدر کو آج بھی یاد ہے جب انہوں نے محض 12 سال کی عمر میں کھیتوں میں کام شروع کیا تھا۔ اب صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار کسان 62 سال کے ہو چکے ہیں جو پچھلی 5 دہائیوں سے کیڑوں، غیر متوقع موسم اور منڈی کے اتار چڑھاؤ سے نبرد آزما رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں صفدر کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے زراعت کو بہت مشکل بنا دیا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے چینی سبزیوں کے بیج آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بارے میں انہوں نے سنا تھا کہ یہ زیادہ مضبوط، زیادہ پیداوار دینے والے اور انتہائی موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر ہوتے ہیں۔

صفدر نے سرسبز کھیتوں میں گوبھی کے موٹے اور صحت مند پودوں کا معائنہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ 5 دہائیوں سے میں نے زراعت کو موسموں کے ساتھ بدلتے دیکھا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اچانک موسمیاتی تبدیلیوں نے موسم کے اندازے کو مشکل بنا دیا ہے اور مقامی اقسام اب ویسی پیداوار نہیں دیتیں لیکن چینی بیج واقعی مدافعت سے بھرپور ہیں جو ہر طرح کے حالات میں زندہ رہنا جانتے ہیں اور کسان کی روزی کی حفاظت کرتے ہیں۔

صفدر نے یہ بھی بتایا کہ چینی اقسام مارکیٹ میں زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ جہاں مقامی گوبھی تقریباً 100 پاکستانی روپے (تقریباً 0.36 امریکی ڈالر) فی کلو میں فروخت ہوتی ہے وہیں چینی اقسام کی قیمت 150 پاکستانی روپے (تقریباً 0.54 امریکی ڈالر) فی کلو تک ہوتی ہے کیونکہ اس کی جسامت بڑی، کلیاں زیادہ سفید اور ذائقہ عمدہ ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے لئے صارفین اضافی ادائیگی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

صفدر کے لئے یہ فرق بہت واضح ہے۔ چینی سبزیاں ہمارے کھانے، دوا، کپڑے اور تمام اخراجات کا بندوبست کرتی ہیں۔ یہ ہماری مالی ضروریات کو پورا کرتی ہیں، ہمیں مالی خودمختاری کا احساس دیتی ہیں اور ہمیں ایک زیادہ آرام دہ اور خوشحال زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہیں۔

اپنے کھیت کے دورے میں صفدر کے ساتھ پاکستان میں سبزیوں کے بیج تقسیم کرنے والی کمپنی "المناہل سیڈز” کے منیجنگ ڈائریکٹر سجاد احمد اور زرعی شعبے میں تحقیق و ترقی کے افسر محمد ابراربھی موجود تھے۔ دونوں چینی اقسام کو پاکستانی کسانوں میں متعارف کرانے کے لئے طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں۔

سجاد احمد گزشتہ ایک دہائی سے چینی زرعی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جن میں تیانجن اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے ساتھ 3 سالہ اشتراک بھی شامل ہے تاکہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کے بیج لائے جا سکیں۔ حالیہ برسوں میں تیانجن کی گوبھی کے بیجوں کی پاکستان کو برآمدات ملک کی سالانہ گوبھی کی کاشت کا 70 فیصد سے زائد حصہ بن چکی ہیں جس سے مقامی صنعت میں درپیش رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔

سجاد احمد نے کہا کہ چینی بیجوں کی اقسام بہترین ہیں اور کسان ان کی پیداوار سے بے حد مطمئن ہیں۔ یہاں تک کہ وہ غریب کسان جن کے پاس چھوٹا زرعی رقبہ ہے وہ بھی مقامی اقسام کے مقابلے میں تقریباً دوگنا فصل حاصل کرلیتے ہیں جس سے انہیں نہ صرف زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے بلکہ مارکیٹ میں بہتر قیمت بھی ملتی ہے۔

پاکستان میں صفدر اور ان جیسے دیگر کسانوں کی ترقی کی جڑیں چین کے شمالی بندرگاہی شہر تیانجن میں ہیں جو زرعی جدت کا ایک مرکز بن چکا ہے۔

چین کی گوبھی افزائش کے قومی چیف سائنسدان اور تیانجن اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے ویجیٹیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے محقق سون دے لنگ کے مطابق ان کی ٹیم نے جب اندرونی طلب پوری کرلی تو بین الاقوامی مارکیٹوں کا رخ کیا۔ 2010 سے وہ بارہا پاکستان، بھارت، ویتنام اور دیگر ممالک کا دورہ کر چکے ہیں تاکہ مقامی موسمی حالات سے ہم آہنگ نئی اقسام تیار کی جاسکیں۔

سون نے کہا کہ اب تک ہم نے پاکستان، ویتنام اور فرانس سمیت 10 سے زائد ممالک میں تجرباتی مراکز قائم کئے ہیں اور 800 سے زائد اقسام کو جانچا ہے۔ اپنی اعلیٰ کوالٹی اور مناسب قیمت کے باعث ہمارے بیج ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ کے شریک ممالک کے کسانوں اور ڈسٹری بیوٹرز میں نہایت مقبول ہیں۔

2025 کی پہلی ششماہی تک سن کی ٹیم کی کاشت کردہ گوبھی کے بیجوں کی سالانہ برآمدات 11 ٹن تک پہنچ گئیں، جو ماضی میں درآمدات پر انحصار سے ایک بڑے برآمد کنندہ بننے کی طرف تبدیلی کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے بعد گوبھی چین کی سب سے بڑی سبزی بیج برآمدی فصلوں میں سے ایک بن گئی ہے، جس سے چینی بیج کمپنیوں کی عالمی مسابقت میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں اس کے نتائج انقلابی ہیں۔ چینی بیج اب بڑے پیمانے پر زرعی زمین پر اگائے جا رہے ہیں جس سے پیداوار اور آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صفدر جیسے کسان نہ صرف زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کے پاس اب غیر متوقع موسمی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت بھی ہے جو پہلے ان کی روزی پر اثرانداز ہوتے تھے۔

دوسری جانب تیانجن میں حکام ان کامیابیوں کے پیچھے وسیع تر وژن کو اجاگر کرتے ہیں۔ تیانجن میونسپل ایگریکلچر اینڈ رورل افیئرز کمیشن کے غیر ملکی تعاون کے ڈپٹی ڈائریکٹر گوان آن رونگ کے مطابق تیانجن کی گوبھی کی اقسام شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) کے ممالک میں 10 لاکھ مو (تقریباً 67,000 ہیکٹر) سے زیادہ رقبے پر اگائی جا چکی ہیں۔

گوان نے مزید کہا کہ گوبھی کے علاوہ تیانجن نے قازقستان، ازبکستان اور پاکستان کو پانی کی بچت کرنے والا آبپاشی کا سازوسامان بھی برآمد کیا ہے جس سے جدید اور پانی کے کم ضیاع کے لئے موثر زرعی بنیادیں قائم ہوئی ہیں۔ جانوروں کی افزائش نسل میں تیانجن کی "آؤچھون اینیمل ہسبینڈری کمپنی” نے سعودی شراکت داروں کو تکنیکی خدمات فراہم کی ہیں جن سے بھیڑوں کی اموات کی شرح 20 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد سے نیچے آگئی ہے۔

گوان نے کہا کہ آگے چل کر تیانجن زرعی سائنس اور زرعی مشینری سازی میں اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایس سی او ممالک کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرے گا۔ ہم اعلیٰ معیار کے بیج، جدید زرعی ٹیکنالوجیز اور جدید سہولیات کو فروغ دیں گے تاکہ شراکت دار ممالک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

محمد ابرار جیسےماہرین کے لئے یہ وژن بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے کسان مقامی طور پر ہائبرڈ بیجوں کی تیاری کی توقع رکھتے ہیں تاکہ لاگت کم ہو اور بیج سستے ہوں۔ ایس سی او کی مشترکہ تحقیقی لیبارٹریوں کو پاکستان جیسے رکن ممالک میں وسعت دینے سے بیجوں کو مقامی آب و ہوا سے ہم آہنگ کیا جا سکے گا اور چھوٹے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔

گوبھی کی یہ کہانی صرف ایک مثال ہے لیکن یہ واضح کرتی ہے کہ سائنسی تعاون کس طرح زمینی سطح پر لوگوں کی زندگیاں بدل رہا ہے۔ جو کچھ تیانجن کے گرین ہاؤسز میں شروع ہوا وہ اب پنجاب کے کھیتوں میں جڑ پکڑ چکا ہے، کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے، روزگار محفوظ بنانے اور بہتر مستقبل بنانے کے نئے اوزار فراہم کر رہا ہے۔

صفدر کے لئے یہ بیج محض فصلیں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق یہ "ایک لائف لائن” ہیں، ایک علامت کہ ایس سی او کے فریم ورک کے تحت کس طرح چین-پاکستان زرعی تعاون معاشروں میں استقامت اور خوشحالی کو فروغ دے رہا ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!