لاہور میں چینی اور پاکستانی کارکن اورنج لائن میٹرو ٹرین (او ایل ایم ٹی) کا مرمتی معائنہ کررہے ہیں-(شِنہوا)
اسلام آباد(شِنہوا)سینیٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سابق چیئرمین مشاہد حسین سید نے پاکستان اور چین کی دوستی سیاسی اعتماد اور پائیدار تعاون کا نمونہ قرار دیتے ہوئے نئے دور میں مشترکہ مستقبل کے حامل قریبی پاک-چین معاشرے کی تعمیر کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا ہے۔
پاکستان-چائنہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے شِنہوا کو ایک حالیہ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ دونوں ممالک کو عالمی سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تزویراتی شراکت داری کو مزید گہرا کرنا چاہیے۔
مشاہد حسین سید نے 74 سالہ سفارتی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بانی قیادت کی قائم کردہ دوستی سے لے کر چین-پاکستان دوستی ہائی وے کہلانے والی شاہراہ قراقرم تک اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے آغاز تک دونوں ممالک نے ایک مضبوط سدابہار تزویراتی شراکت داری قائم کی ہے۔
گوادر شہر کی بندرگاہ کے قریب ماہی گیروں کی گودی کا منظر-(شِنہوا)
2013 میں شروع ہونے والا سی پیک چین کے تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک نمایاں منصوبہ ہے جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خودمختار علاقے کے شہر کاشغر سے منسلک کرتا ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ توانائی، ٹرانسپورٹ اور صنعتی تعاون پر مرکوز تھا جبکہ نئے مرحلے میں یہ زرعی شعبے اور عوامی فلاح و بہبود سمیت دیگر میدانوں تک پھیل رہا ہے۔
سابق سینیٹر نے بتایا کہ سی پیک کے آغاز سے قبل پاکستان کو سکیورٹی چیلنجز اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی کا سامنا تھا۔ چین پہلا ملک تھا جس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی، ہمارے مستقبل پر پختہ اعتماد کا اظہار کیا اور عالمی سرمایہ کاری کے نقشے پر ہماری حیثیت کو بہتر بنایا۔
پی سی آئی کے چیئرمین نے کہا کہ سی پیک نے رابطوں کو بہتر بنایا، ہماری بجلی کی قلت کو کم کیا اور بڑی تعداد میں روزگار اور تعلیمی مواقع پیدا کئے۔
مشاہد حسین سید نے نشاندہی کی کہ حالیہ برسوں میں سی پیک کا دائرہ زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ماحول دوست توانائی اور دیگر شعبوں تک پھیل چکا ہے جس سے پاکستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کو فروغ ملا ہے۔
اسلام آباد میں چینی اور پاکستانی ماہرین چین-پاکستان مشترکہ مالیکیولر افزائش بین الاقوامی لیبارٹری کے تیار کردہ گندم کے تجرباتی کھیت کا معائنہ کررہے ہیں-(شِنہوا)
مشاہد حسین سید نے کہا کہ تھر کول بلاک-IIکے کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے میں مقامی خواتین کوئلہ لے جانے کے لئے ڈمپر چلا سکتی ہیں۔ پشاور-کراچی موٹروے کے سکھر-ملتان سیکشن نے ہزاروں مقامی افراد کو روزگار فراہم کیا جبکہ کولڈ چین سہولیات اور سڑکوں کی بہتری سے گوادر کی ماہی گیری کی صنعت کو فائدہ پہنچا۔
ان کے مطابق سی پیک صرف فولاد اور کنکریٹ کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ عوامی ترقی پر مبنی ایک منصوبہ ہے۔
مشاہد حسین سید نے تجویز دی کہ دونوں ممالک کو صنعتی منتقلی، اہم معدنیات کی ترقی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور فائیو جی جیسے شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنا چاہیے۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ چین کے ڈرپ ایریگیشن اور کثیر فصلوں کے تجربے سے سیکھے۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ پاکستان کے پاس تعلیم یافتہ افرادی قوت ہے اور چین اے آئی، روبوٹکس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور ماحول دوست توانائی میں عالمی رہنما ہے۔ تعاون کی گنجائش بہت وسیع ہے۔
مستقبل کے حوالے سے مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بالخصوص الیکٹرک گاڑیوں، قابل تجدید توانائی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے شعبوں میں چین کی ترقیاتی ترجیحات سے ہم آہنگ حکمت عملیاں مرتب کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کو موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی کوششوں کے ساتھ جوڑنا ہوگا تاکہ ماحول دوست اور پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
چین کے شمالی شہر تیانجن کے تیانجن ماڈرن ووکیشنل ٹیکنالوجی کالج میں محمد محسن(دائیں) خودکار سازوسامان چلاناسیکھ رہے ہیں-(شِنہوا)
نوجوان نسل کے بارے میں بات کرتے ہوئے پی سی آئی کے چیئرمین نے 50 سال قبل بطور طالب علم اور پاکستان-چین یوتھ فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے سربراہ کی حیثیت سے پہلی بار چین کے دورے کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہی میرے چین سے تعلق کی ابتدا تھی۔
مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ پاک-چین دوستی ایک منفرد تعلق ہے جو وقت کی آزمائش پر پورا اترا ہے، جو یکجہتی اور باہمی اعتماد پر مبنی ہے۔ چین کی کامیابیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے نوجوانوں کو امن، ترقی اور خوشحالی پر مبنی بہتر مستقبل کی تعمیر میں مل کر کام کرنا چاہیے۔

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link