اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم سیتا رام کی بریت اپیل منظور کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس مقدمے کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہیں کر سکتی،عمل آئین کی خلاف ورزی، انصاف کی نفی ہے، پولیس عوام نہیں طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے، تمام صوبوں کے آئی جیز قانون پر عملدرآمد یقینی بنا کر عوامی اعتماد بحال کریں۔
جمعہ کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے قتل کے ملزم سیتا رام کی بریت اپیل پر پولیس رویئے کیخلاف 30صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت نے ملزم کی بریت اپیل منظور کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن ملزم کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی ،مدعی کی بروقت اطلاع کے باوجود مقدمہ 2دن کی تاخیر سے درج ہوا۔
ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اطلاع روزنامچہ میں تو درج کی لیکن ایف آئی آر نہیں کی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قابل دست اندازی جرم میں مقدمہ کا اندراج لازم ہے، سندھ میں اکثر مقدمات کے اندراج میں تاخیر دیکھی گئی ہے جو تشویشناک ہے، مقدمات کا اندراج اور تفتیش ایگزیکٹو عمل ،فوجداری نظام کا اہم اور بنیادی جزو ہے۔
فیصلے میں کہا گیاہے کہ معلومات ملتے ہی جلد از جلد مقدمہ کا درج کرنا ڈیوٹی افسر کی قانونی ذمہ داری ہے، پولیس افسر مقدمہ کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہیں کرسکتا ، تاخیر کے ملزم اور مدعی پر اثرات ہوتے ہیں اور شواہد ضائع ،بے گناہ افراد کو شامل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پولیس فورس اور پولیس سٹیشن عوام کی خدمت کیلئے ہیں، مقدمے میں آئی جی سندھ اور پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے رپورٹ بھی جمع کروائی گئی جس میں دی گئی وجوہات میں ثقافتی طریقوں، شکایت کنندگان کی مصالحت کی کوششوں،مذہبی عقائد قانون کے مطابق نہیں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کا ایف آئی آر درج نہ کرنا آئینی خلاف ورزی جبکہ تاخیر سے ایف آئی آر کا اندراج انصاف کی نفی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے، عوام کی نہیں،ایف آئی آر میں تاخیر کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کیساتھ ظلم ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس سٹیٹ کا تاثر خطرناک ہے، ہمیں آئینی ریاست کی طرف جانا ہے، ہر پولیس افسر آئین کا سختی سے پابند ہے۔
عدالت نے فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرلز ایس او پیز بنائیں اور عوامی اعتماد بحال کریں۔