لان ژو(شِنہوا)چین کے شمال مغربی صوبے گانسو میں قدیم شاہراہِ ریشم کے تاریخی مرکز میں فنی تعلیم کا ایک چینی کالج اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی مشترکہ طور پر نئے دور کے زرعی ماہرین تیار کرنے کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں۔
30 جون کو دو طرفہ تعلیمی تعاون پروگرام کے تحت چین آنے والے پاکستانی طلبہ کے پہلے بیچ کی شان دان کاؤنٹی میں بائی لی ووکیشنل کالج میں گریجویشن ہوئی۔ ان طلبہ کو چین اور پاکستان دونوں ممالک سے تسلیم شدہ دوہری اسناد دی گئیں۔
بائی لی ووکیشنل کالج کے عہدیدار وانگ یوآن لِن نے کہا کہ ہم تعلیم کو تعاون کا ایک پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں تاکہ چین کی جدید زرعی ٹیکنالوجیز اور انتظامی تجربہ پاکستان منتقل کیا جا سکے اور نوجوانوں کو جدید زراعت میں سائنسی علم اور عملی مہارت حاصل ہو۔
2021 سے اس کالج نے پاکستان میں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے ’’2+1‘‘ ماڈل پر مبنی مشترکہ ٹیلنٹ تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت طلبہ نے 2 سال پاکستان میں اور ایک سال چین میں تعلیم حاصل کی۔
منتخب ہونے کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد 10 طلبہ ستمبر 2024 میں شان دان پہنچے جہاں انہوں نے اپنے کورس کا آخری مرحلہ شروع کیا۔
چین میں ان طلبہ کو بیج پیدا کرنے کی تکنیک، بغیر مٹی کے کاشت، سمارٹ ایگریکلچر انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) ٹیکنالوجی اور پودوں کے ٹشو کلچر جیسے منظم تربیتی کورسز کروائے گئے۔
بائی لی ووکیشنل کالج کے استاد اور بین الاقوامی کلاس کے مشیر گاؤ بولون نے کہا کہ نصاب کو نظریاتی اور عملی پہلوؤں کے امتزاج سے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ طلبہ پیچیدہ زرعی تصورات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان پر عملدرآمد کرسکیں۔
طلبہ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی ٹیکنالوجی پلانٹ ٹشو کلچر رہی جو بائیوٹیکنالوجی ہے۔ یہ جراثیم سے پاک اور کنٹرول شدہ ماحول میں پودوں کے الگ الگ حصوں، بافتوں یا خلیوں سے پورے پودوں کو تخلیق نو کے قابل بناتی ہے۔
گریجویٹ ہونے والے ایک طالب علم امیر حمزہ نے کہا کہ پاکستان میں ہم عموماً آلو کی کاشت کے لئے ٹیوبر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں میں نے ٹشو کلچر کے ذریعے پنیری اُگانا سیکھا جس سے ہائبرڈ افزائش ممکن ہے اور پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
کلاس مانیٹر خان حافظ محمد علی رضا نے بتایا کہ وہ اپنے خاندانی فارم پر ایک ٹشو کلچر لیبارٹری قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ مقامی کسانوں کو فصلوں کی بہتری اور بیماریوں سے بچاؤ میں مدد دی جا سکے۔ ان کے خاندان کا 50 ایکڑ رقبے پر مشتمل فارم ہے۔
علی رضا نے چین میں دیکھے گئے سمارٹ گرین ہاؤس نظاموں کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گرین ہاؤسز ابھی بھی زیادہ تر دستی طور پر چلائے جاتے ہیں جبکہ چین میں شیشے کے گرین ہاؤس موبائل فون سے درجہ حرارت اور نمی کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ زرعی شعبے کا مستقبل ہے۔
بائی لی ووکیشنل کالج ہر طالب علم کے لئے ایک مشیر اور ایک ہم عمر سرپرست بھی مقرر کرتا ہے اور ماہانہ مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ بین الاقوامی طلبہ چین میں بہتر طور پر خود کو ڈھال سکیں۔ چینی زبان، خطاطی اور ثقافتی کورسز بھی نصاب میں شامل ہیں۔
گاؤ نے کہا کہ پاکستانی طلبہ محنتی اور باادب ہیں۔ وہ اپنے وطن میں زراعت کو بہتر بنانے کا مضبوط جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ تبادلہ دو طرفہ رہا ہے۔
گاؤ نے کہا کہ انہوں نے ہمیں پاکستانی کھانے چکھنے کے لئے مدعو کیا اور اپنی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔
حمزہ نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان کی نسبت چین میں نوجوانوں کی کم تعداد زراعت سے وابستہ ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ چین کی زیادہ ترقی، ٹیکنالوجی کی وسعت اور متنوع صنعتوں کو قرار دیا جو ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
وانگ یوآن لِن کے مطابق اب تک اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پر 124 بین الاقوامی طلبہ کو تربیت دی جا چکی ہے جن میں سے 10 نے دوہری اسناد حاصل کیں۔ مستقبل میں یہ پروگرام بزرگوں کی نگہداشت، بیج کی افزائش اور چینی کھانوں کے فن جیسے دیگر شعبہ جات تک بھی وسعت پائے گا۔
ستمبر میں پاکستانی طلبہ کا نیا گروپ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے چین پہنچے گا۔
علی رضا نے کہا کہ ہمارے کسانوں کو نئی فصلوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔ میں چین واپس آکر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں، ممکن ہوا تو پی ایچ ڈی بھی کروں گا اور اپنے علم سے پاکستان میں زرعی پیداوار بڑھانے میں مدد دوں گا۔
