پانی رُکتا ہے، تو زندگی سسکنے لگتی ہے،پانی… وہ بےرنگ معجزہ ہے جو زمین کو لہجہ دیتا ہے، بیج کو خواب دیتا ہے، مٹی کو ماں بناتا ہے، پودے کو لمس دیتا ہے اور انسان کی رگوں میں حیات بن کر دوڑتا ہے۔ پانی بہتا ہے تو دریا گاتے ہیں، فصلیں ہنستی ہیں، اور ہوا میں تروتازگی بولتی ہے۔مگر جب پانی رُک جائے تو ناصرف اس کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ بُو بھی آنے لگتی ہے۔پانی نہ ملنے سے زمین صرف پیاسی ہی نہیں رہتی،وہ اندر سے ٹوٹنے بھی لگتی ہے۔ایک ایسا سنّاٹا پھیلتا ہے جو صرف کھیتوں میں نہیں،دلوں میں بھی چھا جاتا ہے۔اور تب زندگی سسکنے لگتی ہے… بالکل خاموشی کے ساتھ،کیونکہ پانی صرف جسم کو ہی سیراب نہیں کرتا،یہ تہذیبوں کی سانس،تمدنوں کیلئے ریڑھ کی ہڈی اور انسانی شعور کی بقا بھی ہے۔جب یہ رکتا ہے، تو صرف کھیت نہیں سوکھتے،وہ تاریخ بھی مدھم پڑ جاتی ہے جو کبھی انہی دریاؤں کے کنارے لکھی گئی تھی۔
22 اپریل 2025 کوبھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں فالس آپریشن کے ذریعےدہشت گردی کاایک منصوبہ تیار کیاگیاجس میں 26 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر بھارتی مسلمان سیاح شامل تھے۔ بھارت نے واقعے کی مکمل تحقیق کیے بغیر فوری طور پر اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا اور پھر حملہ بھی کر دیا جس میں اسے منہ کی کھانا پڑی۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کے حصے کےپانی پر حملہ، اس جنگ کا اگلا باب تھا۔بھارت نے یکطرفہ طورپرسندھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کا اعلان کردیا۔1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے ہونے والا سندھ طاس معاہدہ ایک طویل المدت، متوازن اور قابلِ عمل معاہدہ رہا ہے، جو جنگوں میں بھی قائم رہا۔ اس کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب پرکے پانی پر مکمل حق حاصل ہے، مگر بھارت نے اس معاہدے پر نظرثانی، بہاؤ کی معطلی اور آبی دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات کا ااعلان کرکے جنوبی ایشیا میں پانی کو ہتھیار بنانے کی خطرناک روش اپنائی ہے۔
ماہ مئی 2025 میں دریائے چناب کے بہاؤ میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ جنوبی پنجاب کے کھیت خشک پڑنے لگے، کسان پریشان ہوئے، اور فطرت کی سانس رکنے لگی۔ تھر کی خواتین آج بھی پانی کے ایک گھونٹ کے لیے میلوں چلتی ہیں۔ بلوچستان کے کئی گوٹھ پانی کی قلت کے باعث خالی ہو چکے ہیں، اور کراچی میں پانی ایک بنیادی سہولت نہیں، کاروبار بن چکا ہے۔ WHO (2023) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے باعث پیدا ہوتی ہیں، جبکہ UNDP (2024) کے مطابق 2025 میں پاکستان کی فی کس پانی دستیابی 500 مکعب میٹر سے کم ہو چکی ہے۔ World Resources Institute (2024) نے بھی پاکستان کو ان 17 ممالک میں شامل کیا ہے جو شدید آبی قلت سے متاثر ہیں۔اور یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب بھارت نہ صرف دریا روکنے کی بات کر رہا ہے، بلکہ دریا کے اخلاقی اصول بھی بھول چکا ہے۔ وہ ملک جو خود 2030 تک اپنے 21 بڑے شہروں میں پانی کی قلت سے دوچار ہونے والا ہے (NITI Aayog: Composite Water Management Index, 2019) وہ دوسروں کا پانی روکنے کا حق کس بنیاد پر رکھتا ہے؟ کیا وہ دریا جو قدرت نے سرحدوں سے بالاتر بنا دیے، اب دہلی کے دفتر میں بیٹھ کر بند کیے جائیں گے؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا مسئلہ صرف سیاسی قیادت نہیں، ایک خاص نظریاتی ذہنیت ہے جو آر ایس ایس جیسے انتہا پسند اداروں کی فکری پرورش سے جنم لیتی ہے۔ وہ پانی جیسے فطری رزق کو بھی سیاسی بیانیے کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کے لیے دریا جغرافیہ نہیں، ایجنڈا بن چکے ہیں۔ مودی حکومت سمجھتی ہے کہ اگر دشمن کو پیاسا کر دیا جائے تو فتح مکمل ہو جاتی ہے۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ جو قومیں پانی روکتی ہیں، وہ وقت کا بہاؤ روکنے کے قابل کبھی نہیں رہتیں۔ جو دریا کا راستہ روکتا ہے، تاریخ کا رُخ بھی اُس کے خلاف ہو جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان پانی کے مسئلے پر صرف پریس کانفرنسوں، سیمیناروں اور بینرز سے آگے بڑھے، اور اس کو میزوں کے گرد گھومنے والے مشوروں سے نکال کر کھیتوں، نہروں، اور شہری نالوں تک لے جائے۔ سب سے پہلے، نہری نظام کی اصلاح، پانی کی چوری کی روک تھام، اور منصفانہ تقسیم جیسے کم لاگت مگر زیادہ فائدے والے اقدامات پر فوری عمل کیا جائے۔ شہری و صنعتی سطح پر واٹر ری سائیکلنگ، رین واٹر ہارویسٹنگ، اور صاف نکاسی کے نظام کو ہر نئی ہاؤسنگ اسکیم کا حصہ بنانا چاہیے، صرف نقشے کی خوبصورتی کے لیے نہیں، زمین کی پیاس کے لیے۔ زرعی میدان میں ڈرپ اور اسپرنکلر سسٹمز کو محض نمائشوں میں دکھانے کے بجائے چھوٹے کسانوں کے کھیت تک لایا جائے، جزوی سبسڈی، پرائیویٹ شراکت داری اور ٹیکنیکل تربیت کے ذریعے۔ ساتھ ہی قومی بیداری مہم کا آغاز کیا جائے، لیکن اس بار کوئی رنگین کتابچہ یا بینر کافی نہیں ہوگا ہمیں سکول، میڈیا، مساجد اور گھروں میں پانی کی اخلاقی حیثیت کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔ اور آخر میں، یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ’’پانی پر تقریر‘‘ اور ’’پانی کا بندوبست‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دریا اس بات سے متاثر نہیں ہوتے کہ اُن پر کتنی تقریریں ہوئیں، وہ صرف اسی طرف بہتے ہیں جہاں ارادہ، سرمایہ اور منصوبہ بندی ہو۔ لہٰذا بھاشا، داسو، اور مہمند جیسے ڈیمز کو سیاست کے پوسٹروں سے اتار کر ریاستی منصوبہ بندی کی فائلوں میں ڈالا جائے مگر ایسی فائل میں، جسے ہر حکومت محض “دیکھ کر” آگے نہ بڑھا دے، بلکہ اٹھا کر مکمل کرے۔
سب سے اہم بات، پاکستان کو چاہیے کہ وہ پانی کے مسئلے کو صرف سفارتی احتجاج تک محدود نہ رکھے، بلکہ بین الاقوامی قانون، ماحولیاتی انصاف اور انسانی حقوق کے تینوں محاذوں پر متحرک ہو۔ عالمی بینک سے باقاعدہ طور پر ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ کیا جائے تاکہ سندھ طاس معاہدے کی اصل روح کو بحال رکھا جا سکے۔
میرے نہایت عزیز دوست ذوالفقار مظفر کے والدِ گرامی، مظفر پُوار صاحب جو پنجاب کے ایک قدیم، باوقار اور زمیندار روایت کے نمائندہ بزرگ ہیں ،اُن شخصیات میں سے ہیں جن کی آنکھیں زمین کی نبض پہچانتی ہیں، اور جن کے جملے صرف الفاظ نہیں، صدیوں کا سیکھا ہوا سکوت ہوتے ہیں۔ ایک دن نہایت دھیمے اور دکھ بھرے لہجے میں انہوں نے مجھ سے کہا: ’’پُتر!جدوں پانی رُک جاندا اے تے نا صرف نہراں سُک جاندیاں نیں، دریا وی چُپ ہو جاندے نیں… پر اصل گل ایہہ اے وے ساڈے دل دی تڑکن وی رکن لگ جاندی اے۔ اسیں اس دھرتی نوں مر دا ویہندے آں، جیہڑے نال ساڈی نس نس جُڑی اے، تے انج لگدا اے ساڈے ہتھاں وچ کج وی نئیں رہیا۔‘‘یہ صرف ایک بزرگ کسان کی فریاد نہیں تھی، بلکہ ایک پوری قوم کی وہ دبتی ہوئی چیخ تھی جو اب دریا کے بہاؤ میں نہیں، آنکھوں کے کناروں پر اُتر آئی ہے۔
قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: “وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ” (الأنبیاء: 30) — پانی زندگی کی بنیاد ہے، تخلیق کی جڑ، اور بقا کا آخری سہارا۔ اگر پانی نہ رہا… تو نہ ہریالی بچے گی، نہ خوشبو، نہ انسان، نہ انسانیت۔ پھر صرف زمین نہیں مرے گی، ہم بھی اندر سے خاموشی سے بجھ جائیں گے — اُس شعلے کی طرح جو بغیر آواز کے بجھتا ہے۔ بات اب پانی پر نہیں، شعور پر ہے۔ ہمیں دریا کی روانی کو صرف بندش سے نہیں، بےحسی سے بھی بچانا ہے۔ پانی پر سیاست نہیں، بصیرت، اخلاص اور اجتماعی جرات درکار ہے — وہی جرات جو ہمیں واپس لے جائے اس پہلی بوند تک… جہاں سے زندگی نے چلنا سیکھا تھا۔