نان چھانگ(شِنہوا)سٹریٹجک کمیونیکیشن فورم 2025 کے دوران پاکستان کے سفارتی نمائندوں نے چین کے صوبہ جیانگ شی کے شہر وویوآن کا دورہ کیا جسے "چین کا خوبصورت ترین دیہی علاقہ” کہا جاتا ہے۔ اس دورے کا مقصد چین کی روایتی ثقافت اور دیہی ترقی کے امتزاج کو بہتر طور پر سمجھنا اور دیہی نظم و نسق کے حوالے سے مکالمے کو فروغ دینا تھا۔
چین میں پاکستانی سفارتخانے کے قونصلر محمد عمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں یہ چین کے منصوبہ سازوں اور حکومت کی کامیابی ہے کہ انہوں نے مقامی مہارت اور خصوصیات کو قومی ترقیاتی حکمت عملیوں سے موثر طور پر ہم آہنگ کیا۔ یہاں لوگوں کی اصل قابل خرچ آمدنی میں ہونے والا اضافہ نہایت متاثرکن تھا۔
چائے کے وقفے کے دوران چین میں پاکستانی سفارتخانے کے منسٹر قونصلر منظور علی میمن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں چائے دوستی کی علامت ہے۔پاکستان کے قومی نشان پر چائے کے پتوں کی تصویر اس کی زراعت اور ثقافت میں چائے کی خاص اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔پاک-چین دوستی کی بنیاد بھی چائے کی ثقافت سے جڑی ہوئی ہے جس کی جڑیں قدیم شاہراہ ریشم تک جاتی ہیں۔ 1980 کی دہائی میں چین کی اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ماہرین نے 2بار پاکستان کا دورہ کیا اور چائے کے لئے موزوں علاقوں کا تعین کرکے پاکستان میں چائے کی پہلی جدید کاشت کا آغاز کرنے میں معاونت کی۔ چینی ماہرین کے مشورے پر حکومت پاکستان نے نیشنل ٹی ریسرچ سٹیشن قائم کیا جو 2013 میں نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ٹی ایچ آر آئی) بن گیا۔
ہلکی بارش کے دوران سفارتی نمائندوں نے لونگ تینگ ٹی گارڈن کا دورہ کیا۔ منسٹر قونصلر میمن نے زراعت اور ثقافتی سیاحت کے گہرے امتزاج کی بھرپور تعریف کی جس نے مقامی کسانوں کو ترقی کے ثمرات میں حقیقی طور پر شریک کیا۔لونگ تینگ گاؤں نے چائے کی صنعت پر انحصار کرتے ہوئے جامع قدر کا نظام قائم کیا ہے جو پیداوار، پراسیسنگ اور ترسیل کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کےعلاوہ گاؤں نے گھر میں قیام، آرٹ سکیچنگ اور چائے چننے جیسے سیاحتی منصوبے کے تجربات کو فروغ دے کر زرعی مصنوعات کی قدر میں اضافہ کیا ہے جس سے کسانوں کی آمدنی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
وویوآن کے ہوانگ لنگ علاقے میں سفارتکاروں نے ’فو‘ ربنگز، ’شائی چھیو‘ (فصلوں کو دھوپ میں سکھانا) اور چائے بنانے جیسی روایتی چینی ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت کی۔ ایک نمائندے نے 3 فریقی باہمی فائدہ مند تعاون طریقہ کار کا بتایا۔ اس میں قدیم مکانات کو محفوظ رکھتے ہوئے انہیں دوبارہ آباد کرنے کی حکومتی پالیسی، صنعتی نظام کی پالیسی کی تشکیل میں کاروباری اداروں کی 50 کروڑ آر ایم بی کی سرمایہ کاری اور مقامی دیہاتیوں کی زمین کی شراکت کے ذریعے شمولیت شامل ہیں۔ سفارتکار کو جب معلوم ہوا کہ ہوانگ لنگ اپنی ’شائی چھیو آئی پی‘ بروئے کار لاتے ہوئے سالانہ 27 لاکھ 20 ہزار سیاحوں کا خیرمقدم کرتا ہے اور 42 کروڑ یوآن کی آمدنی حاصل کرتا ہے تو انہوں نے اس ماڈل کو "2پہاڑوں کے نظریے” کی جیتی جاگتی مثال کے طور پر نہایت توجہ سے نوٹ کیا۔
مختلف دیہی نمائندوں کا تبادلہ خیال تہذیبی مکالمے کا نمایاں پہلو بن کر ابھرا۔جیانگ شی کے شہر وویوآن میں واقع ہوانگ لنگ گاؤں نے "شائی چھیو آئی پی” کے تحت ثقافتی سیاحت کے انضمام سے دیہی احیا کا اپنا راستہ پیش کیا۔جیانگ شی کے شہر شانگ راؤ کے بی شان گاؤں نے بتایا کہ کس طرح دیہاتیوں نے انٹرنیٹ کو اپناتے ہوئے پہاڑی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچایا اور اجتماعی خوشحالی حاصل کی۔آنہوئی کے شہر شیاؤگانگ گاؤں نے زمین کے نظام میں اصلاحات کے ذریعے دیہی توانائی کو اجاگر کیا۔شَنشی کی ژوچھوان کاؤنٹی کے لیان ژانگ گاؤں نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے لیس دیہی ترقی کا خوشحال ماڈل پیش کیا۔ان چاروں گاؤں کی مختلف ترقیاتی حکمت عملیاں چین کے دیہی نظم و نسق کے تنوع کو واضح کرتی ہیں۔
محمد عمر نے کہا کہ میرے خیال میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ چین کے 4 مختلف قصبوں سے آئے 4 دیہاتی نمائندوں کو سننے کا موقع ملا اور کیسے مختلف علاقوں میں مختلف ترقیاتی حکمت عملیاں منافع کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ سمجھنے میں بہت مدد ملی کہ مختلف طریقہ کار کس طرح مقامی سطح پر ملک کے وسیع مفاد میں استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ ہوانگ لنگ کا سیاحتی ماڈل پاکستان کی زرعی ترقی کی ترجیحات سے ہم آہنگ ہے اور اس میں سیکھنے کے لئے قیمتی اسباق موجود ہیں۔
یہ چائے سے بھرپور مکالمہ چین کے دیہی ترقی کے تجربے کی جاندار مثال بن گیا جس نے نہ صرف چین اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں زرعی تبادلے اور دیہی احیا میں تعاون کے نئے امکانات پیدا کئے بلکہ اس ماڈل نے عالمی سطح پر پائیدار دیہی ترقی کے لئے موثر "چینی حل” بھی پیش کیا۔
