چھنگ دو(شِنہوا)چین کے جنوب مغربی صوبے سیچھوان میں واقع چھنگ دو شن ناؤ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کے سورج کی روشنی سے روشن تھراپی روم میں چھن نامی ایک 5 سالہ لڑکا اس وقت ہنس پڑتا ہے جب اس کا پسندیدہ کارٹون کردار اسے جواب میں ہاتھ ہلاتا ہے۔ یہ ردعمل اس کے دماغی سگنلز کی مدد سے ہیڈ سیٹ کے ذریعے ڈی کوڈ کرکے پیدا کیا گیا۔
جو لمحہ زیادہ تر بچوں کے لئے عام لگ سکتا ہے وہ گانسو صوبے سے تعلق رکھنے والے چھن کے خاندان کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں اور اس ہائی ٹیک کمپنی کے بانی فینگ روئی کے لئے ایک گہری راحت کا باعث ہے جو آٹزم کی مداخلت کے لئے دماغی کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے لئے وقف ہے۔
چین میں 2023 میں چائنہ ڈس ایبلڈ پرسنز فیڈریشن کی رپورٹ کے مطابق آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) کی تشخیص شدہ ایک کروڑ30لاکھ افراد کو ایک سخت حقیقت کا سامنا ہے۔ زیادہ تر کو ماہرین کی کمی اور علاج کے زیادہ اخراجات کی وجہ سے بہت کم یا کوئی معیاری تھراپی نہیں ملتی۔
45 سالہ فینگ جو بائیو انجینئر سے اب ایک کاروباری شخصیت بن چکے ہیں اس صورتحال کو بدلنے کے لئے پرعزم ہیں۔
وہ انسانی دماغ کے اعصابی نظام کو ایک وسیع شاہراہ کے نظام سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹزم کے شکار بچوں میں کچھ راستے منقطع ہوتے ہیں جبکہ بعض راستے اضافی سگنلز سے جام ہو جاتے ہیں جو ان کی سماجی اشاروں، زبان اور حسی محرکات کو سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔
فینگ نے کہا کہ دماغ کی پیچیدگی کی وجہ سے یہ حیاتیاتی رکاوٹیں طویل عرصے سے تحقیق کے راستے میں رکاوٹ رہی ہیں جس کی وجہ سے آٹزم کی بروقت تشخیص اور موثر، قابل رسائی علاج کی ترقی میں عالمی سطح پر مشکلات پیش آئی ہیں۔
