چھنگ دو(شِنہوا)دوسری بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس برائے سائنس و ٹیکنالوجی تبادلہ چین کے جنوب مغربی صوبے سیچھوان کے دارالحکومت چھنگ دو میں 10 سے 12 جون تک منعقد ہوئی۔
تین روزہ اس تقریب میں 90 سے زائد ممالک اور تقریباً 20 بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے تاکہ عالمی جدت کی شراکت داری کے لئے راہ متعین کی جا سکے۔
کانفرنس میں نمایاں تعاون میں چین اور پاکستان کے درمیان گہری ہم آہنگی شامل تھی، جسے پاکستانی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے سیکرٹری ساجد بلوچ نے "ہمالیہ سے بلند شراکت داری” قرار دیا۔
ساجد بلوچ نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، جو 2013 سے ایک نمایاں بی آر آئی منصوبہ ہے، نے نقل و حمل اور توانائی کی بنیادی شہری سہولتوں میں انقلابی ترقی کی ہے، جو جدید تکنیکی تعاون کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر رہا ہے۔
ساجد نےکہا کہ دونوں ممالک پہلے ہی مصنوعی ذہانت، ماحول دوست ٹیکنالوجیز اور برقی گاڑیوں جیسے شعبوں میں مشترکہ تحقیق کا آغاز کر چکے ہیں اور مزید یہ کہ طویل مدتی تعاون دیگر بی آر آئی شراکت دار ممالک کے لئے قابل تقلید تعاون کے نمونے فراہم کرے گا۔
کانفرنس کے دوران چینی انجینئرز سوسائٹی اور پاکستان انجینئرنگ کونسل نے پیشہ ور انجینئرز کی باہمی قبولیت کے معاہدے پر دستخط کئے، جو سی پیک کے اگلے مرحلے کے منصوبوں جیسے سمارٹ بندرگاہیں اور قابل تجدید توانائی گرڈز کے لئے اعلیٰ معیار کے ماہرین کو یقینی بنانے کا ایک قدم ہے۔
چین اور پاکستان نے سی پیک کے جغرافیائی اثرات سے پیدا ہونے والے منفرد ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حل بھی تیار کئے ہیں۔
شاہراہ قراقرم جو دوطرفہ تعاون کی علامت ہے، مشکل جغرافیائی حالات میں تعمیر کی گئی چونکہ یہ قدرتی آفات کے خطرے والے علاقے میں واقع ہے، اس لئے تعمیر کے دوران متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم چین اور پاکستان نے شاہراہ قراقرم کے توسیعی منصوبے میں قریبی تعاون کیا اور شاہراہ کے لئے آفات سے بچاؤ کی ٹیکنالوجی کا ایک نظام قائم کیا۔
سائنسی تجزیے سے لے کر انجینئرنگ کے نفاذ تک، اس نے ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی تعاون پیچیدہ جغرافیائی علاقوں میں بنیادی شہری سہولتوں کے خطرات کو موثر طریقے سے کم کرسکتا ہے، جو عالمی سرحد پار منصوبوں کے لئے ایک معیار قائم کر رہا ہے۔
2023 میں قائداعظم یونیورسٹی میں چین-پاکستان مشترکہ تحقیقاتی مرکز برائے ارضیاتی علوم (سی پی جے آر سی) قائم کیا گیا، جو سی پیک کے ساتھ مٹی کے تودے گرنے اور سیلاب جیسے موسمیاتی آفات کا مطالعہ کرنے کے لئے وقف ہے۔
اس مرکز کامقصد پاکستان کی پائیدار ترقی اور آفات کے خطرے میں کمی کے لئے سائنسی سفارشات فراہم کرناہے اور ٹیکٹونکس، ماحولیاتی نظام اور ماحول دوست جدت میں چینی مہارت کو مربوط کرناہے۔
سی پی جے آر سی کے اہم محرک پروفیسر محمد قاسم جان نے کہا کہ چین کے آفات سے بچاؤ میں وسیع تجربہ اور جدید ٹیکنالوجیز پاکستان کے ساتھ تعاون کے لئے بہت زیادہ امکانات رکھتی ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بار بار قدرتی آفات کا شکار ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی پی جے آر سی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں عوامی تبادلے کے لئے بھی ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔
سی پی جے آر سی کے چیف سائنسدان کوئی پینگ نے کہا کہ چین نے پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے تاکہ ملک میں آفات کی نگرانی اور ابتدائی انتباہی نظام تیار کیا جا سکے۔
یہ نظام قومی سطح پر اہم تکنیکی معاونت فراہم کرے گا، جس میں آفات کے ڈیٹا سینسنگ، ارتقا کے رجحان کا تجزیہ، ابتدائی انتباہ اور خطرے کی پیش گوئی شامل ہے جو پاکستان کی مجموعی آفات سے بچاؤ اور تخفیف کی صلاحیتوں کو بہتر بنائے گا۔
پہاڑی شاہراہوں سے لے کر ڈیجیٹل ابتدائی انتباہات تک، چین اور پاکستان مسلسل یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جنوب-جنوب تعاون جغرافیائی مسائل کو تکنیکی کامیابیوں میں بدل سکتا ہے۔
