اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ججز ٹرانسفرو سنیارٹی فرسٹ ایمپریشن کیس ہے، ہمیں مستقبل کیلئے مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے، عدالت کے سامنے آئینی و قانونی نقطہ کی تشریح کا معاملہ ہے، تبادلے کے معاملے میں تین چیف جسٹسز شامل تھے، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے، آرٹیکل 175اے کے تحت نئی تقرری ہوسکتی ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس پر سماعت کی ۔وکیل صلاح الدین نے دلائل میں موقف اپنایا کہ کسی جج کے تبادلے سے متعلق آئینی نکات واضح ہیں،مستقل ٹرانسفر کی صورت میں آرٹیکل 175اے غیر مو ثر ہو جائے گا، ماضی میں کسی جج کا ایک ہائیکورٹ سے دوسری میں مستقل تبادلہ کی کوئی مثال موجود نہیں ہے، آرٹیکل 200کے تحت صرف عبوری ٹرانسفر کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مستقل تقرری کا اختیار صرف جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے، آرٹیکل 175اے کے تحت نئی تقرری ہی ممکن ہے، جبکہ تقرری اور تبادلہ دو الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں، جج کے تبادلے کیلئے با معنی مشاورت ضروری ہے اور بامعنی مشاورت کے بغیر کیا گیا سارا عمل محض دکھاوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں معلومات کو چھپایا گیا اور غلط بیانی سے کام لیا گیا، اسلام آباد ایکٹ کے سیکشن 3میں تقرری کی بات کی گئی ہے، جبکہ ٹرانسفر کا ذکر تک موجود نہیں ہے، انہوں نے جوڈیشل کمیشن رول 6کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ریجن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں عدالت کے سامنے آئینی و قانونی نقطہ کی تشریح کا معاملہ ہے، تبادلے کے معاملے میں تین چیف جسٹسز شامل تھے، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے، آرٹیکل 175اے کے تحت نئی تقرری ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ کے منٹس عدالت کے پاس موجود ہیں جنہیں دیکھا جا سکتا ہے، اس پر صلاح الدین نے جواباً کہا میرے پاس میٹنگ منٹس کا کوئی خزانہ موجود نہیں ، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میٹنگ منٹس سے متعلق کچھ سوالات آخر میں کریں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے اور ہمیں مستقبل کیلئے اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے، وکیل صلاح الدین نے کہا کہ پہلے رائونڈ میں بھی انہوں نے یہی مو قف اپنایاکہ جوڈیشل کمیشن نے اس معاملے پر غور ہی نہیں کیا، جہاں قانون خاموش ہے، وہاں لازمی شقوں کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا، وزیراعظم کو جو سمری بھیجی گئی اس میں کہا گیا کہ پنجاب میں ایک جج ہو گا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ تبادلے کا اختیار تو صدر پاکستان کا ہے، ججز کے ٹرانسفر کا عمل تو وزارت قانون نے شروع کیا۔
بعد ازاں عدالت کیس کی سماعت ملتوی کرنے لگی تو وکیل صلاح الدین نے استدعا کی کہ سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کی جائے جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے وضاحت کی کہ کل بنچ میں موجود کچھ ججز دستیاب نہیں ہوں گے، صلاح الدین نے تجویز دی کہ آج دن ایک بجے کے بعد سماعت دوبارہ رکھی جائے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سماعت مکمل نہیں ہو پائے گی کیونکہ جواب الجواب دلائل میں سوالات بھی شامل ہو جاتے ہیں جس سے جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی اتفاق کیا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔