ہفتہ, مئی 24, 2025
ہومColumns & Blogsعورت کی معاشی خودمختاری، قوم کی جنگ

عورت کی معاشی خودمختاری، قوم کی جنگ

بین السطور۔۔۔رانابلال یوسف

عورت اس دھرتی کی وہ مہکتی فصل ہے جو جب کھلتی ہے تو تہذیبیں مہکنے لگتی ہیں اور جب کچلی جائے تو معاشرے بنجر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسا چراغ ہے جو نہ صرف اپنے آنگن کو روشن رکھتا ہے بلکہ اقوام کے اندھیروں میں بھی روشنی بانٹتا ہے۔ مگر افسوس یہی چراغ صدیوں سے معاشی غلامی کے تنگ و تاریک کمرے میںمقید ہے، جہاں نہ روشنی کو گزرنے کی اجازت ہے، نہ ہوا کو۔ جہاں عورت کی شناخت صرف ’’بیٹی، بہن اوربیوی‘‘کے دائرے تک محدود کر دی گئی ہے، جیسے باقی تمام شناختیں اس کے دامن سے چھن لی گئی ہوں۔یہ کوئی شاعرانہ یا فلسفیانہ بیان نہیں، بلکہ زمینی حقیقت ہے۔

 پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ملک کی آبادی کا 51.48 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ یعنی اگر پاکستان ایک گاڑی ہے، تو اس کے دونوں پہیوں میں سے ایک عورت ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، کیا گاڑی ایک پہیے پر چل سکتی ہے؟ اگر زبردستی چلانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ دائیں گرے گی یا بائیں۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ہمارا معاشرہ یا تو انتہاپسندی کی طرف جھک رہا ہے یا پھر جاہلیت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔

پدرسری نظام (Patriarchy) ایک ایسا معاشرتی سانچہ ہے جو مرد کو خاندانی، سماجی، سیاسی اور معاشی طاقت کا مرکز بناتا ہے، جبکہ عورت کو محض تابع، خاموش اور پس پردہ کردار تک محدود رکھتا ہے۔ اس نظام کی جڑیں نیولتھک دور (Neolithic Age) سے جڑی ہیں، جب انسان نے شکار سے زراعت کی طرف قدم بڑھایا اور زمین، پیداوار اور اختیار مرد کے پاس آیا۔ رفتہ رفتہ عورت کو معیشت سے بےدخل کر دیا گیا  اور آج بھی یہی نظام عورت کی معاشی خودمختاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اگر آج کی عورت معاشی طور پر خود کفیل ہو جائے، اپنے وسائل پر خود اختیار حاصل کرلے  تو نہ صرف وہ اپنے مقام کو بحال کر سکتی ہے بلکہ پدرسری نظام کی جڑوں کو بھی ہلا سکتی ہے۔ کیونکہ معاشی طاقت ہی اصل آزادی کا دروازہ ہے۔ عزت تب ہی معتبر ہوتی ہے جب اختیار اس کے ہاتھ میں ہو۔ اور اختیار صرف اُس کے پاس ہوتا ہے جس کے پاس مالی خودمختاری ہو۔

تاریخ گواہ ہے کہ عورت صرف چولہے اور چار دیواری تک محدود نہیں رہی۔ مصر کی ملکہ حتش پسوت ((Hatshepsut  نے نہ صرف سمندری تجارت کو فروغ دیا بلکہ معیشت کو استحکام دیا۔ چین کی وو ژیاتیان (Wu Zetian ) نے خواتین کی تعلیم کو عام کر کے بیوروکریسی میں ان کی شمولیت کو ممکن بنایا۔ روم کی لیویا ڈروسلا (Livia Drusilla ) اور فارس کی پوراندخت (Purandokht or Boran Persia) نے ریاستی پالیسیوں میں اصلاحات لا کر مردوں کے سیاسی شعور کو چیلنج کیا۔ ان خواتین نے ثابت کیا کہ جب عورت کو موقع ملتا ہے تو وہ صرف تاریخ کا حصہ نہیں بنتی، بلکہ تاریخ کو موڑنے والی قوت بن جاتی ہے۔

اسلام نے جب معاشرے میں قدم رکھا تو دنیا عورت کو زندہ دفن کر رہی تھی۔ اسی ماحول میں حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب خاتون تاجربن کر ابھریں۔ انہوں نے صرف اپنا کاروبار نہیں سنبھالا بلکہ رسولِ اکرمؐ کی نبوت کے مشن کو بھی بھرپورمالی معاونت بخشی۔ حضرت نسیبہ بنت کعبؓ نے جنگ اُحد میں تلوار تھامی، حضرت رفیدہؓ نے طب کے میدان میں اولین مسلم نرس بن کر کردار ادا کیا۔ یہ خواتین صرف اسلامی تاریخ کی زینت نہیں، بلکہ ایک نظام کی بنیاد ہیں جو عورت کو معاشی، سماجی، اور سیاسی اختیار دیتا ہے۔ رسولِ اکرمؐ کا فرمان: ’’النساء شقائق الرجال‘‘(سنن ابی داود: 236) ’’عورتیں(خلقت اور طبیعت میں) مردوں کی طرح  ہیں۔‘‘حضور اکرمؐ کا یہ فرمان  آج بھی ہمارے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے، کیا ہم نے واقعی اس حدیث کو اپنایا؟

آج کی دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں جنہوں نے عورت کو صرف گھر کی رونق نہیں، ملک کی معیشت کا ستون تسلیم کیا۔ چین کی صنعتی ترقی میں خواتین کی شراکت 44 فیصد ہے، ملائشیا اور انڈونیشیا میں مائیکروفنانس پروگراموں کی 60 فیصد مستفید کنندگان خواتین ہیں۔ ناروے، سویڈن اور فن لینڈ میں مساوی تنخواہوں اور قیادت میں شرکت نے معیشت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ روانڈا جیسے ملک، جو کل تک خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا، آج پارلیمان میں 60 فیصد سے زائد خواتین کی موجودگی کی وجہ سے دنیا کی کامیاب ریاستوں میں شمار ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری میں 80 فیصد خواتین کی شمولیت اس کی برآمدی معیشت کی بنیاد بن چکی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستان میں خواتین کو صرف’’بیٹی ہے، پردے میں رکھو، چولہے پر رکھو، پیچھے رکھو‘‘کہہ کر ترقی کی ریس میں جیت سکتے ہیں؟ کیا عزت کا مطلب صرف بےاختیاری ہے؟

پاکستان کی تاریخ بھی ایسی خواتین سے خالی نہیں جو مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے خواتین کے معاشی ادارے قائم کیے، ڈاکٹر شمشاد اختر اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر بنیں، محترمہ فاطمہ جناح نے صرف تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا بلکہ آمریت کے خلاف بھی علم بلند کیا۔ آج کی ہزاروں خواتین سکولوں، ہسپتالوں، عدالتوں، بینکوں اور آئی ٹی سیکٹر میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ 70 فیصد ہے، مگر انہیں مزدور سمجھا جاتا ہے، مالک نہیں۔ جیسے ان کے ہاتھ کی کاشت تو قبول ہے، مگر ان کے دماغ کا مشورہ بوجھ لگتا ہے۔ جیسے عورت صرف پسینہ بہا سکتی ہے، فیصلہ نہیں کر سکتی۔

وہ ہل بھی جوتی ہے، وہ بیج بھی بوتی ہے

مگر گندم کے دانے پر اُس کا نام نہیں ہوتا

ورلڈ بینک کی2022 کی ایک رپورٹ  کے مطابق اگر پاکستان خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنائے تو GDP میں 30 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ UNDP اس بات پر زور دیتا ہے کہ کوئی بھی ملک خواتین کی فعال شمولیت کے بغیر پائیدار ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ہمارے ہاں عجیب تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف بیٹی کو’’رحمت‘‘ کہا جاتا ہے، دوسری طرف جب وہ معاشی آزادی کی بات کرے تو غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ جیسے عزت صرف چولہے کی راکھ میں محفوظ ہے  اور بینک کی رسید اس کے کردار پر دھبہ ہے۔جب کوئی خاتون نوکری کا ذکر کرتی ہے تو بعض مرد ایسے چونک جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کے اے ٹی ایم کارڈ کا پاس ورڈ پوچھ لیا ہو۔ یہ کیسی غیرت ہے جو عورت کی ترقی سے شرمندہ ہو جاتی ہے؟ اگر حضرت خدیجہؓ کاروبار کرتے ہوئے باوقار تھیں، تو آج کی عورت کیوں مشکوک لگتی ہے؟

آج وقت کا تقاضا ہے کہ عورت کو صرف تقدس کا نہیں، قابلیت کا استعارہ بھی تسلیم کیا جائے۔ اسے فریم میں بند کرنے کی بجائے فیلڈ میں موقع دیا جائے۔ کیونکہ عورت صرف خاندان کی پرورش کرنے والی ماں نہیں، معیشت کی پرورش کرنے والی قوت بھی ہے۔ترقی کا خواب صرف اشتہاروں میں اچھا لگتا ہے، اصل تعبیر تب آتی ہے جب عورت اور مرد شانہ بشانہ سفر کریں۔ جب عورت کے ہاتھ میں چمچ کے ساتھ قلم، تسبیح کے ساتھ کی بورڈ  اور دودھ کے پیالے کے ساتھ قانون کی کتاب ہو۔

 عالمی معاشی ماہر امرتیا سین (Amartya Sen) نےبجا کہا ہے:’’اگر آپ کسی قوم کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں، تو اُس کی عورتوں کو معاشی طور پر بااختیار بنائیں‘‘۔ یہ محض ایک قول نہیں بلکہ جدید ریاستی معیشت کا نچوڑ ہے۔اب وقت آن پہنچا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس باب میں محض نعروں اور بیانات سے آگے بڑھیں۔ اشتہارات سے قومیں نہیں بنتیں اور عورت کو گھر کیچاردیواری میں قید رکھ کر معیشت کو خودکفیل نہیں بنایا جا سکتا۔

ریاست کوکچھ ٹھوس اقدامات فوری طور پراٹھانے کی ضرورت ہے۔سرکاری ملازمتوں میں خواتین کے لیے مختص کوٹے کو 10 فیصد سے بڑھا کر حقیقت پسندانہ سطح پر لایا جائے تاکہ عملی مساوات قائم ہو۔ کوٹہ محض خانہ پُری کے لیے نہیں، ترقی کے دروازے کھولنے کے لیے ہوتا ہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں، بالخصوص میڈیکل، انجینئرنگ، قانون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں طالبات کے لیے اضافی نشستیں مختص کی جائیں تاکہ وہ علمی و پیشہ ورانہ میدان میں مکمل شرکت کر سکیں۔یہی اور پسماندہ علاقوں کی طالبات کے لیے مخصوص سہولت مراکز، ہاسٹلز اور کم قیمت ٹرانسپورٹ سروسز کا اجرا کیا جائے تاکہ علم تک رسائی میں رکاوٹیں ختم کی جا سکیں۔جامعات میں سکالرشپ پالیسیوں میں طالبات کو ترجیح دی جائے تاکہ معاشی مسائل تعلیم کی راہ میں حائل نہ ہوں۔کاروباری خواتین کے لیے آسان قرضہ سکیمیں، ڈیجیٹل مارکیٹ میں داخلے کے تربیتی کورسز  اور ہنر سے جُڑی مالی معاونت کو فروغ دیا جائے۔کاروباری و دفتری ماحول کو خواتین دوست بنایا جائے۔ دفاتر میں کریچ سینٹرز، میٹرنٹی بینیفٹس  اور فلیکسی ٹائمنگ جیسی سہولیات کو لازم قرار دیا جائے۔ڈیجیٹل فری لانسنگ، ای کامرس اور گھریلو صنعت کو خواتین کی شرکت کے ذریعے تقویت دی جائے تاکہ وہ خود کو محدود دفتری اوقات تک نہ سمجھیں بلکہ عالمی معیشت سے جُڑ سکیں۔کیونکہ آج کی عورت صرف نوکری نہیں مانگتی ،وہ مواقع مانگتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت میں زراعت کو بیک بون مانا جاتا ہے تو عورت کو بھی معیشت کا مضبوط ترین بازو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ عورت صرف ہنر ہی نہیں رکھتی، بلکہ صبر، نظم، مہارت اور تسلسل جیسے اوصاف کی پیکر ہے۔اور آخر میں بس اتنا عرض ہےکہ اگر عورت کے پر کاٹ دیے گئے، تو معاشرہ زمین پر رینگتا رہے گا،لیکن اگر اسے پرواز کی اجازت دی گئی تو یہ قوم ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔خدارا! تفریق ختم کیجیے۔ یہ جنگ صرف عورت کی نہیں، پوری قوم کی ہے۔میرا ماننا ہے:

عورت جو بیدار ہوتو تقدیر بدل دے

ظلمت کے اندھیروں میں روشن چراغ جلے

رانا بلال یوسف
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!