شنگھائی(شِنہوا)چین میں 4 ماہ سے زائد زیرعلاج اور زیر مشاہدہ رہنے کے بعد تھیلیسیمیا کی شدید بیماری میں مبتلا پاکستان کی 4 سالہ بچی ایلسا (فرضی نام) خون کی منتقلی پر انحصار سے چھٹکارا پا کر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئی ہے۔
وہ رواں سال 8 جنوری کو شنگھائی پہنچی اور فودان یونیورسٹی کے چلڈرن ہسپتال کے شعبہ امراض خون میں چین کی اصل جین ایڈیٹنگ ٹریٹمنٹ حاصل کرنے والی پہلی غیر ملکی بچی بن گئی۔ وہ اس نئی ٹیکنالوجی سے صحت یاب ہونے والے بچوں میں کم عمر ترین بھی ہے۔
تھلیسیمیا ایک قسم کی غیرجنسی کروموسومی اور یک نسلی موروثی مرض ہے۔ اگرچہ یہ خون کے نظام کی ایک نایاب جینیاتی بیماری ہے لیکن یہ بحیرہ روم کے علاقے، مشرق وسطیٰ، افریقہ کے استوائی خطے اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے علاقوں میں وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے۔
ایلساکے والد محمد عدیل کے مطابق ایلسا خاندان کی3بیٹیوں میں سے دوسری ہےچونکہ اس کی بڑی بہن ایک صحت مند بچی ہے، اس لئے اس کے والدین نے پہلے جینیاتی جانچ نہیں کرائی تھی تاہم طبی معائنے کے بعد دونوں تھیلیسیمیا کے کیریئر نکلے۔
شدید بی- تھیلیسیمیا میں مبتلا ہونے کی وجہ سےایلسا کو زندہ رہنے کے لئے باقاعدگی سے خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی تھی بصورت دیگر وہ کئی پیچیدگیوں کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی۔
محمد عدیل نے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے آن لائن کافی معلومات حاصل کیں اور بالآخر انہیں چین میں اس بیماری کے حوالے سے ایک طبی تحقیق کا پتہ چلا۔ محقق سے ای میل کے ذریعے رابطہ کرنے کے بعد انہوں نے ایلساکو فودان یونیورسٹی کے چلڈرن ہسپتال میں علاج کے لئے لانے کا فیصلہ کیا۔
فودان یونیورسٹی کے چلڈرن ہسپتال کی نائب صدر اور شعبہ امراض خون کی تدریسی سربراہ پروفیسر ژائی شیاؤ وین نے بتایا کہ ایلسا کے علاج میں استعمال ہونے والی بیس ایڈیٹنگ دوا شنگھائی کے ایک دوا ساز ادارے سے حاصل کی گئی تھی۔
ژائی نے وضاحت کی کہ علاج کے دوران ڈاکٹروں نے پہلے مریض سے آٹولوگس ہیمو ٹوپوئیٹک سٹیم سیلزجمع کئے، اس کے بعد انہوں نے شنگھائی ٹیک یونیورسٹی کی تیار کردہ انتہائی درست ٹرانسفارمر بیس ایڈیٹر(ٹی بی ای)کا استعمال کرتے ہوئے خلیوں کی جین ایڈیٹنگ کی جس سے صحت مند اجسام میں قدرتی طور پر موجود فائدہ مند بیس میوٹیشنز کی نقل تیار ہوئی تاکہ آر-گلوبن کی ایکسپریشن کو دوبارہ فعال کیا جا سکے اور ہیموگلوبن کی آکسیجن لے جانے کی صلاحیت کو بحال کیا جا سکے۔ ترمیم کئے گئے ہیموٹو پوئیٹک سٹیم سیلز کو پھر مریض کے جسم میں واپس منتقل کیا گیا تاکہ ہیموگلوبن کی نارمل مقدار حاصل کی جا سکے۔
ژائی نے کہا کہ اس علاج کی خاص بات یہ ہے کہ ہیموٹو پوئیٹک سٹیم سیلز مریضوں کے اپنے جسم سے حاصل کئے جاتے ہیں لہٰذا تھیلیسیمیا کے روایتی بون میرو ٹرانسپلانٹ کےمقابلے میں ہمیں ڈونرز کا انتظار کرنے یا میچنگ اور مسترد ہونے جیسے مسائل سے متعلق فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایلسا کے ہیموگلوبن کی کل مقدار 100 گرام فی لیٹر سے زائد ہوگئی اور اب وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکتی ہے اور مستقبل میں ایک عام بچے کی طرح سکول جاسکتی ہے۔
20 مئی کو فودان یونیورسٹی کے چلڈرن ہسپتال کے مشکل اور نایاب بیماریوں کے ملٹی ڈسپلنری کنسلٹیشن سنٹر میں میڈیکل ٹیم نے ایلساکے لئے ایک چھوٹی سی الوداعی تقریب منعقد کی جس میں اس کی صحت مند اور خوشگوار زندگی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا۔ ایلساکے والدین نے ٹیم کو پھول پیش کئے اور اپنی بیٹی کا جدید ٹیکنالوجی سے علاج کرنے پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
ایلسا کے والد محمد عدیل نے بتایا کہ انہوں نے ایک فائبر آپٹک سینسنگ کے سائنسدان کے طور پرآن لائن بہت تحقیق کی اور پایا کہ یہ علاج کافی بہتر ہے کیونکہ انکی بیٹی کا کوئی ڈونر نہیں تھا۔ ہم باقاعدہ مشاورت کے لئے مزید 2 سال شنگھائی میں رہنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ وہ کہیں گے کہ یہ ہم سب کے لئے ایک فخر کا لمحہ ہے۔ ہسپتال کی ٹیم نے جس طرح ہماری مدد کی ہے اس کے لئے میرے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں ہیں۔ وہ صرف علاج ہی نہیں کرتے بلکہ بیماری سے لڑنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔
فودان یونیورسٹی کے چلڈرن ہسپتال نے 2016 میں بچوں کی نایاب بیماریوں کے سٹیم سیل ٹرانسپلانٹیشن کے علاج کے لئے ایک ملٹی ڈسپلنری ٹیم تشکیل دی تھی۔
2023 میں جین ایڈیٹنگ علاج کے کلینیکل مطالعہ کے آغاز کے بعد سے شدید بی۔ تھیلیسیمیا میں مبتلا 4 بچوں کا اس ٹیکنالوجی سے علاج کیا گیا۔ ان میں سے پہلے بچے کو تقریباً 18 ماہ سے خون کی منتقلی کی ضرورت نہیں پڑی۔
