ہفتہ, اپریل 19, 2025
ہومLatestسپریم کورٹ ،فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت 28 اپریل...

سپریم کورٹ ،فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل بارے کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئے اور روزے گلے پڑ جائیں،ملٹری قانون آئین سے ٹکراتا ہے، 1973ء کا آئین بڑا مضبوط ہے، آرمی ایکٹ میں اگر سویلینز کو لانا ہوتا تو اس میں الگ سے لکھا جاتا۔

جمعہ کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے وکیل خواجہ حارث کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا پک اینڈ چوز کس طرح سے کیا گیا؟،وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ پک اینڈ چوز والی بات نہیں ہے، جو جرم ہو اس کے مطابق دیکھا جاتا ہے، کیس نوعیت کے مطابق اے ٹی سی یا ملٹری کورٹ میں بھیجا جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ کیا سویلین اس کے زمرے میں آتے ہیں؟، یہاں پر بات صرف فورسزکے ممبرز کو ڈسپلن میں رکھنے کیلئے ہے، جہاں پر کلیئر ہو کہ یہ صرف ممبرز کیلئے ہے وہاں مزید کیا ہونا ہے؟۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر کوئی سویلین آرمی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہ صرف ممبرز کیلئے ہے ،اگر آرمی ایکٹ میں سویلین کو لانا ہوتا تو پھر اس میں الگ سے لکھا جاتا، 1973کے آئین میں پہلے والے دو آئین کی بہت سی چیزیں ویسے کی ویسی ہی آگئیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ مارشل لا ادوار میں 1973ء کے آئین میں بہت سی چیزیں شامل کی گئیں، آئینی ترمیم کے ذریعے مارشل لاء ادوار کی چیزیں تبدیل کرکے 1973ء کے آئین کو اصل شکل میں واپس لایا گیا لیکن اس میں بھی آرمی ایکٹ کے حوالے سے چیزوں کو نہیں چھیڑا گیا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹ کارروائی کو آئین توثیق کرتا ہے اور کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے، کورٹ مارشل زمانہ جنگ نہیں زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواجہ صاحب ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئے اور روزے گلے پڑ جائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سیکشن 2ون ڈی ون 1967ء میں شامل کیا گیا، یہ سیکشن 1962ء کے آئین کے نیچے بنایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 202کے تحت دو طرح کی عدالتیں ہیں، ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے، ہمارا 1973 کا آئین بڑا مضبوط ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فیئر ٹرائل کورٹ مارشل کارروائی میں بھی ہوتا ہے، پریزائیڈنگ افسران قانونی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ ملٹری کی 12 سے 13 تنصیبات پر حملے ہوئے، ملٹری تنصیبات پر حملے سیکیورٹی کی ناکام تھی اور اس وقت ملٹری افسران کے خلاف کاروائی کی گئی تھی، کیا 9 مئی پر کسی ادارے نے احتساب کیاگیا؟۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔بعد ازاں خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت 28اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔

+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!