اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کے دوارن ریمارکس دیے کہ ایک سازش جو ابھی ہوئی نہیں، اس پر قانون کا اطلاق کیسے ہوگا، کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی ریاستی مفاد کی خلاف ہوتی ہے، تمام جرائم ریاستی مفاد کے خلاف ہوتے ہیں۔منگل کوجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کیس سماعت کی۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا سازش کرنے پر بھی نفاذ ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ کرمنل جسٹس سسٹم کو آرٹیکل 175 کی شق تین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ضابطہ فوجداری میں بھی قتل اور اقدام قتل کی الگ الگ شقیں ہیں، ویسے اپیل کی حد تک تو اٹارنی جنرل نے عدالت میں گزارشات پیش کی تھیں، اٹارنی جنرل کی گزارشات عدالتی کارروائی کے حکم ناموں میں موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میں کسی کو اپیل کا حق نہیں دے رہا، بین الاقوامی طور اپیل کا حق دینے کی دلیل دی گئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب آرٹیکل 8 کی شق تین اے کے تحت معاملہ عدالت آ ہی نہیں سکتا تو پھر بات ختم، پھر کیسی اپیل۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ایک کنفیوژن ہے جس پر ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، پریس والے بیٹھے ہیں ناں جانے میری آبزرویشن کو کیا سے کیا بنا دیں، اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ کیا عام قانون سازی کرکے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں، کیا آئینی ترمیم کرکے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا، بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ فورم موجود ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد اٹارنی جنرل خود پیش ہوں۔
دوران سماعت وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ 9 مئی کے جرائم ریاستی مفاد کے خلاف تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا بولان میں ہونے والا ٹرین کا واقعہ ریاستی مفاد کے خلاف نہیں تھا؟ آرمڈ فورسز کا بنیادی کام دفاع پاکستان کا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ پھر ہم دفاع کیسے کریں گے جب پیچھے سے ہماری ٹانگیں کھینچی جائیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی جذباتی ہونے کا نہیں ملکی سیکیورٹی کا معاملہ ہے، ایک پولیس والے کی ڈیوٹی ہماری عدالت کے دروازے کے باہر ہو، اس پولیس والے کی ڈیوٹی ہوگی کہ کوئی اسلحہ سے لیس شخص عدالت داخل نہ ہو، مگر وہ پولیس والا پانچ منٹ کے لیے ادھر ادھر ہو جائے تو اس نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، کیا یہ سیکیورٹی آف اسٹیٹ نہیں ہے؟ ۔دلائل کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی۔