اتوار, فروری 23, 2025
ہومLatestقبروں کے رکھوالے پاکستانی کا یادیں محفوظ کرکے شاہراہ قراقرم کے چینی...

قبروں کے رکھوالے پاکستانی کا یادیں محفوظ کرکے شاہراہ قراقرم کے چینی معماروں کو خراج عقیدت

اسلام آباد(شِنہوا) گلگت بلتستان کے پرسکون پہاڑوں میں جہاں بلند و بالا چوٹیاں آسمان کو چھوتی ہیں اور ہوائیں تاریخ کی سرگوشیاں لے آتی ہیں، قبروں کا رکھوالا 70 سالہ علی احمد جان ایک یادگار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو دوستی اور قربانی کا مقدس ثبوت ہے۔
چائنہ یادگار کہلانے والی یہ جگہ 88 چینی مزدوروں کی آرام گاہ ہے جنہوں نے شاہراہ قراقرم (کے کے ایچ) کی تعمیر کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
1978 میں قائم ہونے والی یہ یادگار ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے جنہوں نے بے رحم پہاڑی سلسلے اور سخت موسم کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے ایک ایسی شاہراہ تعمیر کی جس نے کسی قوم کی تقدیر بدل دی۔ لیکن علی احمد جان کے لئے یہ صرف ایک قبرستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ان کی یادیں، لازوال دوستیاں اور ایک عہد ہے جو انہوں نے بہت پہلے رقم کیا۔
علی احمد جان نے اپنے ماضی کویاد کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ آئے تو میں صرف 19 برس کا تھا، وہ اجنبی تھے، پھر بھی میں ان کی طرف راغب ہوا۔ ہر روز میں تعمیراتی مقام پر جاتا تھا، غیر ملکیوں کو اپنے وطن کے دشوار گزار پہاڑوں سے گزرتی سڑک تعمیر کرتے ہوئے دیکھنے کے لئے تجسس میں رہتا تھا۔
مختلف زبان کے باوجود علی احمد جان اور چینی مزدوروں نے مسکراہٹوں، اشاروں اور ہنسی کے ذریعے بات چیت کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا۔
علی احمد جان نےکہا کہ ہرگزرتے روز وہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے، دوستی کے ساتھ اس فرق کو ختم کرتے گئے۔ ہم گھنٹوں بیٹھے رہتے اور ایک دوسرے کی زبان کا ایک لفظ بھی کہے بغیر اپنی خوشیاں اور غم بانٹتے۔ وہ میرے بھائی بن گئے تھے۔
لیکن پہاڑ بے رحم تھے، اونچائی اور خراب موسم نے سینکڑوں چینی مزدوروں کی جان لے لی۔ ہر موت نے علی احمد جان کا دل توڑ دیا۔ انہوں نے سرگوشی سے کہا کہ میں ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہوں جنہوں نے پاکستان میں ہماری خدمت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہ بیان کرتے ہوئے علی احمد جان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف ایک سڑک نہیں بنا رہے تھے وہ ہمارے مستقبل کی تعمیر کر رہے تھے۔
جب یادگار تعمیر کی گئی تھی تو زمین بنجر تھی اور وہاں کوئی گھاس نہیں تھی، کوئی درخت نہیں تھا، صرف ٹھنڈی، سخت زمین تھی لیکن علی احمد جان نے اپنے دوستوں کی عزت کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گھاس اور ہر درخت میں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا، میں انہیں ایک پرسکون آرام گاہ دینا چاہتا تھا، جو زندگی اور خوبصورتی سے گِھرا ہوا ہو۔
علی احمد جان کے نزدیک قبروں کی دیکھ بھال صرف ایک فرض نہیں ہے۔ یہ ایک تاحیات وعدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں، میں ان کی دیکھ بھال کروں گا اور میرے بعد میرے بیٹے اس مقدس فریضہ کو جاری رکھیں گے۔ یہ ان کی میراث ہے جو اس دوستی کا ثبوت ہے ۔
ان کی لگن نے دونوں ممالک کے دلوں کو چھو لیا ہے اور 2017 میں جب انہوں نے چین کا دورہ کیا تو ان کی ملاقات ایک معمر خاتون سے ہوئی جس نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران اپنے بیٹے کو کھو دیا تھا۔
علی احمد جان نے کہا کہ جب اس معمر خاتون نے میرے ہاتھ پکڑے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ اپنے بیٹے کی قبر کی دیکھ بھال کرنے پر میرا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ انہوں نے شکریہ کے طور پر مجھے وہ پیسے دیئے جو انہوں نے برسوں سے بچا رکھے تھے۔
علی احمد جان اور چینی خاندانوں کے درمیان تعلق الفاظ سے بالاتر ہے۔ دو بہنیں، جنہوں نے اپنے اکلوتے بھائی کو خطرناک پہاڑوں پر کھویا، برسوں بعد ان کی قبر پر گئیں۔ خاموشی توڑتے ہوئے ان کی چیخیں پوری وادی میں گونج رہی تھیں۔
علی احمد جان نے کہا کہ جس نے بھی انہیں دیکھا اس کی آنکھیں بھی آبدیدہ تھیں۔ میرے گھر والے بھی رو رہے تھے۔ میرا دل بہت دکھی ہوا، ان کے بھائی نے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کی۔
انہوں نے صرف ایک شاہراہ سے کہیں زیادہ ہماری قوموں کے درمیان دوستی کا ایک پل تعمیر کیا۔
علی احمد جان نے کہا کہ یہ دوستی دوطرفہ اور قابل قدر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں متعدد بار چین مدعو کیا گیا ہے، سینئر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جنہوں نے ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
علی احمد جان نے فخریہ انداز میں کہا کہ وہ کھلے دل سے ہمارا استقبال کرتے ہیں، ہمارے ساتھ محبت اور احترام کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ہم اپنے شہید ہیروز کی یادوں کو زندہ رکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں اور وہ ہماری دوستی کا احترام کرتے ہیں۔
آج شاہراہ قراقرم پر مسافروں، سیاحوں اور پھلتے پھولتے کاروبار کو دیکھ کر علی احمد جان کو خوشی اور غم کا امتزاج محسوس ہوتا ہے۔
علی احمد جان نے کہا کہ ہماری زمین غریب تھی، یہ خوشحال ہوگئی ۔ ہماری زندگی مشکل تھی لیکن وہ آسان ہوگئی۔ یہ سب شاہراہ قراقرم اور اس کی تعمیر کرنے والوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہے۔ میں شاہراہ کو پھلتا پھولتا دیکھ کر بہت خوشی محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میرے دل میں ان دوستوں کے لئے ایک درد رہتا ہے جن کی روحیں یہاں آرام کرتی ہیں، لیکن ان کی وراثت شاہراہ قراقرم کے ہر میل میں بستی ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!