اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں بارے کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ 9مئی کو حد کردی گئی اب بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں،یہ کیا بات ہوئی ایک جماعت نے اپنے دور حکومت میں فوجی عدالتوںکی حمایت کی اب اپوزیشن میں آ کر کہہ دیں اس وقت جو ہوا غلط تھا،ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں، اصل سوال یہ ہے موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں؟، فوج میں ایک انجینئرنگ کور ،ایک میڈیکل کور ہے، کیا اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟،ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہوگی، یہ کیسے ہوگا ایک ملزم کا ملٹری ٹرائل ہو دوسرا اس سے الگ کر دیا جائے؟، ہم وجوہات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے الگ وجوہات بھی دے سکتے ہیں۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی ۔سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بینچ کی جانب سے بھارت میں کورٹ مارشل کیخلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا، برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائیکورٹ طرز پر تعینات ہونیوالے ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو ریفر کر سکتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں، یہ غیرضروری بحث ہے آپ وقت ضائع کر رہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیر سماعت اپیلوں میں کالعدم شدہ دفعات بحالی کی استدعا کی گئی ہے، قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کوبھی دیکھنا ہوگا، سلمان اکرم راجہ صاحب اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تب آپ کے دلائل غیرمتعلقہ ہوسکتے تھے اب نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیس میں اصل سوال ہے کہ موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں؟، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ برطانوی قانون تو وہاں کی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے، موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا، وہ اس پر کیسے اپلائی ہو سکتا ہے ؟ ۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی تھی، اگر ایف بی علی کیس کے وقت اگر آرٹیکل 175کی شق تین ہوتا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہ جاتا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مرکزی فیصلے میں تو آرٹیکل 175کی شق تین کے تحت ایف بی علی کیس کو کالعدم ہی نہیں قرار دیا گیا، آج تک کسی عدالتی فیصلے میں ایف بی علی کیس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کہا کہ اس کی مثال دوسرے طریقے سے دیتا ہوں، 26ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت کیسز آئینی بینچ میں جائیں گے، ترمیم میں یہ بھی کہا گیا آئینی و قانونی تشریح والے زیر التوا کیسزخودبخود آئینی بنچ میں چلے جائیں گے، ایک بینچ نے فیصلہ کیا کیسز خودکار طور پر نہیں جاسکتے، ہم نے کہا نہیں 26ویں ترمیم کے بعد کیسز خودکار انداز میں آئینی بنچ میں جائیں گے، جو دلیل آپ دے رہے ہیں تو آرٹیکل 175کی شق تین کے تحت ایف بی علی کیس کو ختم کیوں نہیں کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب مرکزی کیس میں ایف بی علی فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا ہی نہیں کی گئی تو ہم اپیل میں ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایف بی علی فیصلے کو کیوں چیلنج نہیں کیا گیا؟۔
سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ، اپیل کی عدالت ہے،ایف بی علی کیس کو دیکھ سکتی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اپیل میں اپنے اختیار سماعت کو کس حد تک بڑھا سکتے ہیں؟، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ہم وجوہات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے الگ سے وجوہات بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں 9مئی کا جرم سرزد ہوا ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی میں اس پر عدالت کو بتاتا ہوں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 9مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 184/3کو محدود نہیں کیا جا سکتا، ملزمان کا آزاد عدالت اور فئیر ٹرائل کا حق ہے، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ فئیر ٹرائل کیلئے آپ کو آرٹیکل 8تین سے نکلنا ہوگا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا مجھ سے کل بھی ایک سوال پوچھا گیا تھا، میں نے گزشتہ روز کے سوال کا جواب نہیں دیا، آرمی سے متعلق قانون سازی 2015ء اور پھر 2017ء میں ہوئی تھی، اے پی ایس والے آج بھی انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا میرا اشارہ آرمی چیف کی توسیع کے قانون کی طرف تھا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی۔جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، فوج میں ایک میڈیکل کور بھی ہوتی ہے، دونوں کور میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو قانون سازوں کا کام ہے، ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہوگی، یہ کیسے ہوگا ایک ملٹری ٹرائل ہو دوسرا ملزم اس سے الگ کر دیا جائے؟۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام لگا کر فئیر ٹرائل سے محروم کر دینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، مجھے ایک بہت بڑا کریمنل بنا دیا گیا ہے، مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی عمران خان کیساتھ سازش کا الزام ہے، اگر قانون کی شقیں بحال ہوتیں ہیں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر کہا کہ آپ کیخلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے سیکشن لگے ہونگے۔جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ سے استفسارکیا کہ کیا آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگی گئی ہے، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میرے کیس کو چھوڑیں، نظام یہ ہے الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاؤ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ مفروضوں پر نہ جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل لیکر جائیں، عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کیخلاف تھا، آفیشیل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کیے گئے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جب 21ویں آئینی ترمیم ہوئی تو اس وقت آپ کی پارٹی نے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کی تھی، سلمان راجہ نے کہا کہ میں کسی سیاسی جماعت کی یہاں نمائندگی نہیں کر رہا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ چلیں یوں کہہ دیتی ہوں ایک سیاسی جماعت نے بھی 21ویں ترمیم کے تحت ملٹری کورٹس کی حمایت کی، سلمان راجہ نے کہا کہ اس وقت انہوں نے غلط کیا تھا، اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی اب اپوزیشن میں آکر کہہ دیں اس وقت جو ہوا غلط تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں ایک چیز اچھی تھی کہ سیاسی جماعتوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا، جسٹس عظمت سعید کی اللہ مغفرت فرمائے انہوںنے 21ویں ترمیم کا فیصلہ لکھا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 18فروری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر دستیاب نہیں ہیں، دونوں جج صاحبان نے کراچی جانا ہے۔اگلی سماعت پر بھی سلمان اکرم راجہ دلائل جاری رکھیں گے۔