اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سویلینز کیخلاف فوجی عدالتوں میں پیش کئے گئے شواہد کا جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیںکہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا،دیکھنا ہے کونسے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں؟،جاننا چاہتے ہیں کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ ، اگر ملٹری ٹرائل میں قانون شہادت کی خلاف ورزی ہو تو کیا ہوگا؟،مسئلہ یہاں پروسیجر کا ہے ٹرائل کون کرے گا؟،کیا آرمی ایکٹ میں بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی پرلاگو کیا جاسکتا ہے؟،عدلیہ مارشل لا ء کی توثیق کرتی رہی، کیا غیر آئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6کے زمرے میں آتے ہیں؟۔
پیر کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں بارے کیس پر سماعت کی ۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کئے تو جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مناسب ہوگا کل تک اپنے دلائل مکمل کر لیں، کونسے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اور کیوں ہوئے اس کو مختصر رکھیے گا، ججز کے اس حوالے سے سوالات ہوئے تو آخر میں اس کو بھی دیکھ لیں گے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4)کو بھی کالعدم قرار دیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سویلنز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت آتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 31Dتو فوجیوں کو فرائض کی انجام دیہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا ؟یہ دیکھنا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ کونسے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں؟، مسئلہ یہاں پروسیجر کا ہے ٹرائل کون کرے گا؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے؟۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی آرمی افسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے،؟ آرمی ایکٹ میں کیا آئین معطل کرنے کی سزا ہے؟۔خواجہ حارث نے ستدلال کیا کہ آئین کے آرٹیکل 6میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لا ء کی توثیق کرتی رہی، کیا غیر آئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6کے زمرے میں آتے ہیں؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام کئے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیئے گئے۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں جسٹس انوار الحق کا نوٹ موجود ہے، اس وقت آرٹیکل 10اے نہیں تھا، وکیل کا حق دینا، شواہد پر فیصلہ دینے سمیت پورا طریقہ کار لکھا گیا، ملٹری ٹرائل میں پورے قانون شہادت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں قانون شہادت کی خلاف ورزی ہو تو کیا ہوگا؟۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں قانونی تقاضے پورے نہ ہوں تو اعلی عدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ ہم نے جب دیکھا ہی نہیں ،کیا ہم ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں؟۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میں سزا یافتہ مجرمان میں سے ایک فرد کا شناخت ظاہر کئے بغیر ٹرائل میں اپنائے گئے طریقہ کار بتاؤں گا، سپریم کورٹ نے کیس کے میرٹس کے متاثر نہ ہونے کو بھی مدنظر رکھنا ہے، اس کیس کی کارروائی سے ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا 9مئی واقعات میں ملوث تمام نامزد ملزمان کا مشترکہ ٹرائل ہوا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل الگ الگ کیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ اس عدالتی کارروائی سے ٹرائل متاثر نہیں ہونے دے گی، آپ ابھی ریکارڈ محفوظ رکھیں اگر ضرورت ہوئی تو پوچھ لیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بینچ سربراہ سے معذرت کے ساتھ ملٹری کورٹس فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے؟، ضابطہ فوجداری میں بھی لکھا توسب ہے لیکن قانون کے مطابق ٹرائل نہ ہونے پر ہی اپیل ہوتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک جرم میں دہرے ٹرائل کے اصول کی ممانعت کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ملٹری ٹرائل میں شواہد کا معیار کیا تھا؟، فیلڈ کورٹ مارشل میں کیا گواہان پر جرح کی اجازت تھی؟، کیا دفاع میں گواہ پیش کرنے کا حق دیا گیا؟۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184کی شق 3کے فیصلے کیخلاف اپیل زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ اپیل میں ٹرائل نہیں دیکھ سکتی، میں اس پر دلائل دوں گا، شواہد کے معیار کا جائزہ لینے سے قبل سپریم کورٹ کو اختیار سماعت بھی مد نظر رکھنا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پھر بھی ہم جائزہ تو لے سکتے ہیں ناں ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ احترام کیساتھ کہنا چاہتا ہوں آپ کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتے،تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ کے تحت پہلے سویلین عدالتوں میں ٹرائل چلتا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ 1967ء سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ آرمی ایکٹ کا حصہ ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ میں ترمیم 11اگست 2023ء میں ہوئی،واقعہ مئی 2023کا ہے، کیا قانون کا اطلاق ماضی سے کیا گیا؟۔وکیل وزارت دفاع نے مو قف اپنایا کہ جی آفیشل سکریٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں کل ساری رات پڑھتا رہا، مجھے نہیں ملا آرمی ایکٹ چیپٹر پانچ میں سزا کتنی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ بھی ہے کہ ملٹری کورٹس کو سزائیں سنانے سے روکا بھی سپریم کورٹ نے، اجازت بھی سپریم کورٹ نے دی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا ملٹری ٹرائل میں شفاف ٹرائل کا حق دیا گیا؟۔بعد ازاںکیس کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کردی گئی۔