انقرہ(شِنہوا)چین کا مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(بی آر آئی) اقوام کے درمیان باہمی مفید حل پر مبنی مساوی اور باہمی مفید تعاون کی اچھی مثال ہے۔
انقرہ کی ٹوب یونیورسٹی آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی اوغوز دریوز نے شِنہوا کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’بی آر آئی قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی کے لئے نہایت اہم اقدام ہے جو کراس یوریشین زمین پر مبنی مواصلات اور تجارتی نیٹ ورک ہے۔
دریوز نے کہا کہ بی آر آئی کے تحت چین-ترکیہ تعاون نے توجہ حاصل کی ہے جبکہ ترکیہ کا تزویراتی مقام ایشیا اور یورپ کو آپس میں منسلک کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دہائی میں بی آر آئی نے ایک وسیع تعاون کے نیٹ ورک کے طور پر ترقی کی ہے جو 3 براعظموں تک پھیلا ہوا ہے۔یہ نیٹ ورک تنازعات اور بحرانوں میں بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی خطرات میں کثیر جہتی تعاون کا نیا ماڈل پیش کر رہا ہے۔
دریوز نے کہا کہ یہ اقدام معاشروں کے درمیان چین کے پر امن فلسفے کی عکاسی کرتا ہے۔
اب تک 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں نے بی آر آئی کے تحت بیجنگ سے تعاون کی دستاویزات پر دستخط کئے ہیں۔
دریوزنے اس اقدام کو عالمی ترقی کو فروغ دینے کا ایک ماڈل قرار دیا۔انہوں نے بنیادی شہری سہولیات، تجارت اور ٹیکنالوجی بالخصوص قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز پر اس کے اثرات کو اجاگر کیا۔