حماد شاہ پروفیسر ہوشی لِن سے کاشت کی گئی سبزیوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے۔(شِنہوا)
نان جِنگ(شِنہوا)پاکستان سے تعلق رکھنے والے حماد شاہ کے لیے چین میں سبزیوں کی کاشت کے با رے میں سیکھنے کا عمل صرف ایک خوشگوار ہی نہیں بلکہ جذبے اور امنگوں سے بھرپور سفر ہے۔
چین کے مشرقی صوبے جیانگسو میں نان جِنگ زرعی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے پاکستانی طالب علم حماد شاہ نے گزشتہ 6 برسوں سے چینی گوبھی کی کاشت کی تکنیک پر تحقیق کیلئے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ چین میں گوبھی سال بھر کھانے کا ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔
حماد نے سبزیوں کی جینیات اور افزائش نسل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے یونیورسٹی میں پروفیسر ہو شی لِن کی تحقیقی ٹیم میں شمولیت اختیار کی جہاں انہوں نے اب اعلیٰ معیار اور غذائیت سے بھرپور چینی گوبھی کی 13 اقسام کی کاشت میں مہارت حاصل کی ہے۔
ان میں سے ایک قسم زرد گلاب سے ملتی جلتی ہے، اس میں وٹامن سی کی سطح عام اقسام کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتی ہے، یہ اس کے ساتھ ساتھ سردی برداشت کرنے کی متاثر کن صلاحیت کی حامل بھی ہے۔
حماد نے کہا ”پروفیسر ہو شی لِن کے تحقیقی گروپ کا رکن بننا باعث مسرت ہے، اس نے میری تحقیقی صلاحیتوں کو بڑھانے میں خصوصی مدد کی”۔ حماد نے مزید کہا کہ تین دہائیوں سے زائد تجربے کے ساتھ ہوشی لِن نے خود کو چینی گوبھی عالمی سطح پر تسلیم شدہ نمونہ پودا بنانے کے لئے وقف کر رکھا ہے۔
حماد نے کہا ”گوبھی پروفیسر کے بچے کی طرح ہے اور ہم انہیں پیار سے ‘گوبھی پروفیسر’ کہتے ہیں‘‘۔ انہوں نے سبزیاں اگانے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کے اپنے پروفیسر کے غیر متزلزل عزم کی تعریف کی۔
پروفیسر ہوشی لِن کی رہنمائی میں حماد اور ان کے بین الاقوامی ساتھی طلبا باقاعدگی سے اپنی تحقیقی بنیاد پر سبزیوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں، مشاہدات کرتے ہیں، اعداد و شمار جمع کرتے ہیں اور سبزیوں کے تحفظ اور کیڑے مار ادویات سے پاک کاشت پر مطالعہ کرتے ہیں۔ حماد شاہ نے کہا ’’ہم ہفتے میں کئی بار کھیتوں کا دورہ کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر پودے کی نشوو نما ہو‘‘۔
حماد نے سبزیوں کی تحقیق میں پروفیسرہوشی لِن کا نعرہ “زمین پر مقالے لکھیں اور نتائج کسانوں کے گھروں پر چھوڑیں” اپنے لئے رہنما اصول کے طور پر اپنایا ہے۔ انہوں نے کہا ’’آخر کار ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اکثریت کے فائدے کے لئے ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ چین کی اعلیٰ معیار کی زرعی ترقی کی بنیاد ہے‘‘۔
زرعی تعاون بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم حصہ ہے۔ نان جِنگ زرعی یونیورسٹی نے اس طرح 30 سے زائد ملکوں اور خطوں میں 160 سے زائد یونیورسٹیوں اور اداروں کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔
اس وقت چینی یونیورسٹی پاکستان میں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ساتھ سمارٹ ایگریکلچر اور ٹیلنٹ ڈویلپمنٹ پر تعاون کر رہی ہے جس سے پاکستان یونیورسٹی میں بین الاقوامی طالب علموں کے لیے سرفہرست ملک بن گیا ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون فروغ پا رہا ہے۔ مثال کے طور پر سی پیک کے زرعی منصوبوں کے تحت چینی اداروں کی جانب سے تربیت یافتہ پاکستانی کسان اب چین کو مرچیں برآمد کر رہے ہیں جبکہ پاکستان سے چاول، تِل اور آم چین میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی نمائشوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان کے محکمہ تحفظ خوراک کے ایک سابق عہدیدار کوثر عبداللہ ملک نے سی پیک کے تحت زرعی تعاون کے بارے میں مفید نتائج کا امکان ظاہر کیا جس سے پاکستان میں غربت کے خاتمے اور زراعت کو جدید بنانے میں مدد ملے گی۔
گریجویشن کرنے کے بعد حماد نے زراعت کے شعبے میں کیریئر بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے جو چین کی سبزیوں کی کاشت کی جدید تکنیک کو اپنے وطن پاکستان میں متعارف کرانے کا خواہش مند ہے۔
حماد شاہ نے کہا ”پاکستان واپسی کے بعد میں زراعت میں مسلسل جد یدیت لاؤں گا، متعدد سینئرز نے پہلے ہی چین سے حاصل کردہ علم کے ذریعے پاکستان میں واضح فرق پیدا کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ میں بھی ایسا ہی کرسکتا ہوں”۔
حماد شاہ نے مزید کہا ”میں سمجھتا ہوں کہ میں مستقبل میں بھی تحقیق جاری رکھوں گا اور گوبھی کو چین اور پاکستان کی دوستی کی علامت بنانے کے لیے ایک کڑی کے طور پر استعمال کروں گا”۔