ٹوکیو(شِنہوا)جاپان کے سابق وزیراعظم شگیرو ایشیبا نے ایک سینئر حکومتی اہلکار کے حالیہ بیانات پر دوبارہ تنقید کی ہے، جن میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ جاپان کو جوہری ہتھیار رکھنے چاہئیں۔
جاپان کے ٹی وی چینل بی ایس 11 کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایشیبا نے کہا کہ چونکہ جاپان واحد ملک ہے جسے ایٹمی بمباری کا سامنا کرنا پڑا، اسے جوہری ہتھیاروں کی پھیلاؤ کو روکنے کے معاملے میں واضح موقف اپنانا چاہیے اور ایسے بیانات نہیں دینے چاہئیں جو اس موقف کو نقصان پہنچائیں۔
18 دسمبر کو وزیراعظم کے دفتر میں سکیورٹی کے ذمہ دار ایک نامعلوم سینئر اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ جاپان کو جوہری ہتھیار رکھنے چاہئیں۔ جب یہ بیانات عام کئے گئے تو اس پر جاپان میں وسیع پیمانے پر تنقید اور تنازع کھڑا ہو گیا۔
اس مسئلے پر پہلے بات کرتے ہوئے ایشیبا نے کہا کہ اگر جاپان جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو اسے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ اس طرح کا اقدام جاپان کی جوہری توانائی کی پالیسی کو ناقابل عمل بنا دے گا، جو ملک کے توانائی کے نظام کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جاپان کے لئے ہرگز فائدہ مند نہیں ہوگا۔
جاپانی رسالے شوکان بون شون کے آن لائن ایڈیشن کی 24 دسمبر کی رپورٹ کے مطابق وہ اہلکار جس نے یہ بیان دیا تھا، اووے ساداماسا تھا، جو وزیراعظم سنائی تاکائیچی کے خصوصی مشیر ہیں اور ان کے ذمے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور تخفیف کے امور شامل ہیں۔


