رملہ(شِنہوا)فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک وسیع اصلاحاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد طرز حکمرانی کو جدید بنانا اور ریاست کے قیام کی تیاری کرنا ہے، تاہم حماس نے اسے فوری طور پر "یکطرفہ” فیصلہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس میں قومی اتفاق رائے کا فقدان ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق اس منصوبے کا مقصد قانون کی حکمرانی کو بحال کرنا، شفافیت کو بہتر کرنا اور اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنانا ہے تاکہ فلسطینی اتھارٹی میں عوام کا اعتماد بڑھایا جا سکے۔
تجویز کردہ اقدامات میں سیاسی اور اقتصادی قوانین کا جائزہ لینا شامل ہے، جس میں خاص توجہ مالی نگرانی، عدلیہ اور بدعنوانی کے خلاف حفاظتی اقدامات پر دی گئی ہے۔ اصلاحات کا مقصد نگرانی کرنے والے اداروں کو زیادہ خودمختاری بھی فراہم کرنا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کو مکمل خودمختار ریاست میں تبدیل کرنے کے لئے اقدامات میں انتخابی قوانین کی تجدید اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں نئے قانون کا مسودہ تیار کرنا شامل ہے۔
اس تجویز کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ جمہوری اصولوں اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیاسی پروگرام کی پیروی کرے۔ اس میں بین الاقوامی قانون کی پابندی، دو ریاستی حل کی حمایت اور واحد قانونی اختیار اور مسلح قوت کے اصول کا احترام شامل ہے۔
حماس، جو غزہ پر حکومت کرنے والا عسکری گروپ ہے، نے اس اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں "قومی اتفاق رائے” کا فقدان ہے۔
حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ آئینی اصلاحات کے لئے "یکطرفہ فیصلے” نہیں بلکہ وسیع تر مکالمے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اصلاحات بیرونی دباؤ کے تحت کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ نصاب میں تبدیلیاں اسرائیلی یا یورپی مطالبات کی عکاسی کر سکتی ہیں۔


