سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کرپشن و گورننس بارے آئی ایم ایف رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اداروں پر سوالات اٹھا دیئے جبکہ وزارت خزانہ حکام نے موقف اپنایا کہ آئی ایم ایف سفارشات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائیگا، موثر گورننس کیلئے ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری، 6 سے 10 ماہ کے اندر مکمل کیا جائیگا۔
بدھ کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں اراکین نے مختلف شعبوں میں سامنے آنیوالے بڑے کرپشن سکینڈلز پر برہمی کا اظہار کیا۔
سینیٹر دلاور خان نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف نے ملک میں 5300 ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جن اداروں کا ذکر رپورٹ میں کیا گیا ہے، کیا ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی؟ انہوں نے لاہور میں ایف بی آر کے افسر سے متعلق سنگین واقعہ بیان کیا جس نے مبینہ طور پر ریفنڈز میں کرپشن کیلئے ایک ممبر سے حصہ مانگا اور حصہ نہ ملنے پر فائرنگ کی۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور دیگر اراکین نے اس انکشاف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ کیس کو آئندہ اجلاس میں تفصیل سے زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا۔
اجلاس میں وزارت خزانہ نے مو قف اپنایا کہ رپورٹ میں زیادہ تر نکات وہی ہیں جن پر حکومت پہلے ہی کام کر چکی ہے۔
حکام کے مطابق یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے تعاون سے تیار ہوئی اور موثر گورننس کیلئے ایکشن پلان پر عملدرآمد ضروری ہے جسے 6سے 10ماہ کے اندر مکمل کرنا ہوگا جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت ڈیڑھ سال ہے۔
رکن کمیٹی سینیٹر عبدالقادر نے ایس آئی ایف سی کی کارکردگی، معاہدوں کے فقدان اور ملکی معاشی صورتحال پر بھی سخت تنقید کی۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت رپورٹ میں درج بے ضابطگیوں اور ادارہ جاتی خرابیاں تسلیم کرتی ہے کیونکہ الزامات نہایت سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
وزارت خزانہ نے واضح کیا کہ ڈائیگناسٹک رپورٹ مسائل کی نشاندہی کرتی ہے، حکومت پہلے ہی متعدد شعبوں میں اصلاحات پر کام کر رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی سفارشات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔


