پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 2025کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، 160اراکین نے تحریک کی حمایت جبکہ 79 نے مخالفت کی۔
منگل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تاڑر نے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل 2025ء زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس پر اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ناموس رسالت زندہ باد، نعرے تکبیر، اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔
اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیشن غیر مسلموں کیلئے ہے، سپریم کورٹ نے 2014ء میں فیصلہ دیا تھا کہ کمیشن بنایا جائے لہٰذا اس قانون پر سیاست نہ کی جائے۔سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس طرح کے قانون کیوں لاتے ہیں جس کا کوئی غلط فائدہ اٹھائے، ہم ایسے قانون کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ مختلف معاملہ ہے، قانون کے اوپر قانون کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ وفاقی وزیر کو قادیانیوں کی چالاکیوں کا پتہ نہیں، ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہئے جس سے ان کو راستہ ملے، یہ دوبارہ پٹارا کھولنے والی بات ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرنے کہاکہ آج ایجنڈے کے مطابق آپ نے 7 قانون پاس کرنے ہیں، اقلیت والے بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن اسلام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی، جے یو آئی کو بھی اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے، اس کے باوجود کامران مرتضی کا کہنا ہے اس کی شق 35 کو حذف کر دیا جائے، اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے۔
جے یو آئی رہنماء کامران مرتضی نے کہا کہ ہم کبھی یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم اقلیتوں کے خلاف ہیں کیونکہ ہم اقلیتوں کو اپنے برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون میں دو چیزیں بہت قابل اعتراض ہیں، یہ قانون منظور ہوگیا تو قادیانیوں کیلئے بنایا گیا پہلا قانون غیر موثر ہو جائے گا لہٰذا اس قانون میں سے یہ شق نکالنی ضروری ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کہتا ہے قادیانی غیر مسلم ہیں، ہم سیکشن 35کو ہٹا دیتے ہیں، کامران مرتضی کو دکھ یہ ہے دوسری عدالت کا سوموٹو ختم کیوں ہوا ہے، 12سال سے یہ پینڈنگ ہے اس کو پاس کیا جائے۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آج یہاں بھی سوموٹو ہوگیا، عالیہ کامران نے کامران مرتضی کے خلاف سوموٹو لے لیا۔
علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے، لوگوں کوحقوق نہیں مل رہے، جمہوریت، قانون اورفیصلہ سازی میں اپوزیشن لیڈر کا نہ ہونا اچھی بات نہیں، آپ کو اپوزیشن کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے، اگر چاہتے ہیں اپوزیشن کردار ادا کرے تو ان کو حقوق دیں، تمام قانون سازی عجلت اور جلد بازی میں ہو رہی ہے۔
سینیٹر نور الحق قادری نے کہا کہ داڑھی اور پگڑیوں والوں کو اقلیتوں سے کوئی مسئلہ نہیں، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اس معاملے پر ایک موقف ہے، ہندو، سکھوں اور کرسچنوں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں مگر قادیانیوں کے حوالے سے تشویش ہے، یہ بل تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے کہاکہ قادیانیوں کو اس وزیر اعظم نے کافر قرار دیا جس کی داڑھی نہیں تھی، قیامت والے دن اس پر ہماری پکڑ ہونی ہے، اس وقت امت محمدیۖ کا مسئلہ ہے، وزیر قانون ایسا کوئی دروازہ نہ کھولا جائے، ہم ایسا کوئی قانون پاس نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ مولانا صاحب کی بات کی حمایت کرتا ہوں، یہ کہہ کر وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔
پیر نورالحق قادری نے کہا ہے کہ ہمارا اقلیتوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، قادیانیت اسلام کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں جس کو عوام برداشت نہیں کر سکتے، ہمارا وہی موقف ہے جو مولانا فضل الرحمن کا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ایسا بل تھا جو دونوں ہائوسز پاس کر چکے تھے، صدر مملکت کے پاس جب یہ بل گیا تو انہوں نے اعتراضات اٹھائے کہ ان چیزوں کو دیکھا جائے، نبی کریم ۖپر ہماری جان بھی قربان ہے، کہا گیا کہ خادم رسول ۖکو رہا کرو، کون خادم رسول نہیں ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اور کامران مرتضی نے ترامیم دیں جنہیں حکومت نے قبول کیا، یہ حکومتیں آنی جانی ہیں ہمارا جان مال رسول ۖ پر قربان، حکومتیں کسی کی وراثت نہیں، اڈیالہ جیل کے قیدی کیلئے جو کرنا ہے کریں مگر اہم معاملات پر سیاست نہ کریں۔
جے یو آئی ف کی عالیہ کامران نے شق 35 حذف کرنے کی ترمیم پیش کی جس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شق واپس لے لی۔
بعد ازاں بل کی شق وار منظوری لی گئی اور بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ 160اراکین نے بل کی حمایت جبکہ79نے مخالفت کی ۔


