اسلام آباد: سپریم کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ کیا آرٹیکل 10اے صرف سویلین کی حد تک ہے یا اس کا اطلاق ملٹری پرسنل پر بھی ہوتا ہے؟، آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟،کیا کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے جبکہ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عدالتوں اور ٹی وی پر بولنے سے منع کیا جارہاہے، ہوسکتا ہے مجھے 7فروری کو رینجرز اہلکاروں کے قتل کیس میں گرفتار کرکے ملٹری کورٹ لے جایا جائے۔
منگل کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی علی کیس کا 1962ء کے آئین کے مطابق فیصلہ ہو،۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟، کیا کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کہا گیا ہے کہ سویلنز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی ون پر بات ہوئی، ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لایا گیا آرمی ایکٹ درست ہے، یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی حقوق کے تحت نظرثانی کی جاسکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایف بی علی کیس میں نیکسز کی کیا تعریف کی گئی؟۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ آرمڈ فورسز کو اکسانا اور جرم کا تعلق ڈیفنس آف پاکستان سے متعلق ہونے کو نیکسز کہا گیا، یہاں ایف بی علی کیس کو ایسے پڑھا گیا جس سے الگ عدالت قائم کرنے کی اجازت دینے کا تاثر قائم ہوا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا آپ مرکزی فیصلے کے خلاف دلائل دے رہے ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا؟۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اپیل وجوہات کے خلاف دائر نہیں ہوتی،ڈگری کے خلاف دائر کی جاتی ہے، عدالت آپریٹو پارٹ برقرار رکھتے ہوئے وجوہات تبدیل کرسکتی ہے، عدالت ایسا آئے روز کرتی رہتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 1968ء میں آرڈیننس آیا جس کے تحت بلوچستان تحصیلدار کو عدالت کے اختیارات دیئے گئے، عزیز اللہ میمن کیس میں معاملہ چیلنج ہوا تو عدالت عظمی نے اسے ختم کیا، 1973ء کے آئین کے بعد بھی 14سال تک سلسلہ چلتا رہا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 1987ء میں جب آرٹیکل 175کی شق 3 آئی تو قانون بدل گیا، اگر عدالت جسٹس عائشہ ملک کا آرٹیکل 10اے کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو ہماری جیت ہے، اگر یہ کہا جاتا ہے کہ آرٹیکل 175کی شق 3سے باہر عدالت قائم نہیں ہوسکتی تب بھی ہماری جیت ہے۔انہوں نے کہا عجیب بات ہے کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی کو ضیاالحق نے ملٹری عدالت سے سزا دی، پھر وہی ضیاالحق جب آرمی چیف بنے تو ایف بی علی کی سزا ختم کردی۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہوسکتا ہے ضیاء الحق نے بعد سوچا ہو کہ پہلے وہ غلط تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ضیاء الحق نے بعد میں ایف بی علی سے معافی مانگی ہو، انہوں نے سوال کیا کہ کیا 1962ء کا آئین درست تھا؟۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 1962ء کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے، میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں، اس دور میں آرٹیکل چھپوائے گئے، فتوے دیئے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسی لئے ایوب خان کے دور میں حبیب جالب نے نظم لکھی میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو، ایف بی علی بعد میں کینیڈا شفٹ ہوئے جہاں وہ کینیڈین آرمی کے ممبر بن گئے۔سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 1977-80ء کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل لا کے تحت سزا پانے والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 8سے 10 سال بعد عدلیہ کو تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن کے خلاف ایک قانون لایا گیا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بینادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایک فیصلے کیخلاف اپیل سن رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا اس اپیل میں ہم 187کے اختیار استعمال کرسکتے ہیں، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 187کے تحت مکمل انصاف کا اختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے۔
جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا، شکر ہے اب بڑھا دیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے بہت ریسرچ کی ایسی کوئی سیکشن دنیا میں نہیں، ہمارا آئین کا آرٹیکل 175(3)آزاد ٹرائل کو یقینی بناتا ہے، بھارت میں ہمارے آئین کے آرٹیکل 175(3)جیسی کوئی چیز شامل نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بھارت میں اس کے باوجود محض اصول کی بنیاد پر عدالتوں نے ٹرائل کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، ہمارا تو آرٹیکل 175 (3)آزاد ٹرائل کا مکمل مینڈیٹ دیتا ہے، آزاد ٹرائل کسی آزاد ٹریبونل میں ہی ممکن ہے، فوجی عدالتوں میں نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب سویلین آرمڈ پرسنل کو اکسانے کی کوشش کرے، کیا آرٹیکل 10اے صرف سویلین کی حد تک ہے یا اس کا اطلاق ملٹری پرسنل پر بھی ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں، باقی سوالات کسی اور کیس میں آئیں گے تو دیکھ لیں گے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175کی شق 3کا فائدہ سویلین اور آرمڈ فورسز دونوں کو دینا ہوگا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بعض اوقات ملک دشمن ایجنسیاں سویلین کو استعمال کرتی ہیں، آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں بھارتی آرمی ایکٹ اور پاکستان کے آرمی ایکٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں، ایسا نہیں ہوسکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگا لے، اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے، بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف اپیل ٹربیونل میں جاتی ہے، ٹربیونل اپیل میں ضمانت بھی دے سکتا ہے، شفاف ٹرائل کا حق ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا بھارت کے آرمی ایکٹ میں ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ یہ شقیں بھارت میں نہیں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ شقیں ہی نہیں ہیں تو آپ تقابلی جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہمارا قانون الگ ہے، بھارت کا قانون الگ ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سویلین اور ملٹری پرسنلز دونوں پاکستان کے شہری ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے آرمی ایکٹ میں سویلین سے متعلق دفعات دہشتگردوں کیلئے ہیں، دراصل یہ دفعات حکومت اپنے مخالفین پر لگا رہی ہے، مجھ پر بھی ایف آئی آر ہے کہ 26نومبر کو تین رینجرز اہلکاروں کو قتل کیا، مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے ہی قتل کا منصوبہ بنایا تھا، مجھے کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں میں اور ٹی وی پر بولنا بند کر دو، مجھے کہا جا رہا ہے تمہیں رینجرز اہلکاروں کے قتل پر خصوصی کورٹس لے جائیں گے، ہو سکتا ہے مجھے 7 فروری کو اسی کیس میں گرفتار کرکے ملٹری کورٹ لے جایا جائے،عدالت ان دفعات کو بحال کرتی ہے تو ان کا ایسا ہی استعمال ہوگا۔بعد ازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، سلمان اکرم راجہ پیر کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔